Abdul Hanan Raja.Column

بندے نہیں مانتے .. عبد الحنان راجہ

عبد الحنان راجہ

 

خلیفہ ہارون الرشید کا قافلہ شہر کے بیچوں بیچ گزر رہا تھا۔ ہٹو بچو، باادب کی آوازیں ہر طرف۔ کسی کو شاہی سواری کے قریب آنے کی مجال تھی اور نہ شاہی سواری کے آگے کوئی رکاوٹ برداشت۔ مگر یکایک قافلہ رکا جو ہارون الرشید کے مزاج نازک پہ گراں ہوا۔ قافلہ سالار عرض گزار ہوا کہ بہلول دانا راستہ میں بیٹھے ہیں۔ ہارون الرشید سواری سے اترا اور بہلول دانا کے پاس جا بیٹھا، جو گزرگاہ کی زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں لگا رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو، مجذوب گویا ہوئے کہ بندوں کی اللہ سے صلح کرا رہا ہوں۔ خلیفہ نے کہا کہ معاملہ حل ہوا۔ بہلول بولے اللہ تو مان رہا ہے بندے نہیں مان رہے۔ مگر کل قیامت کو بندے مانیں گے مگر اس وقت اللہ نہیں مانے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں ہی بندوں کی اللہ سے صلح کرا دوں۔ متعدد بار یہ واقعہ پڑھا مگر علامہ ڈاکٹر سلمان مصباحی کی زبانی سادہ، دل نشیں اور دل گداز انداز میں سنا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ عمومی طور پر ہر رات مگر رمضان مقدس میں ہر لمحہ وہ اپنے بندوں کو مغفرت، بخشش اور عطا کی خیرات بے حساب بانٹتا ہے اور واذا سالک عبادی عنی فانی قریب کی نوید کہ آئو میری طرف کہ میں تمہاری رگ جاں سے بھی قریب ہوں۔ گویا رمضان المبارک بندوں کی اللہ سے صلح کرانے کو موجود مگر اپنے ماحول پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ماہ مقدس میں بھی حرص و ہوس کا غلبہ اور غفلت ہی غفلت، کہ بندے صلح کو آمادہ ہی نظر نہیں آتے۔ بلکہ اب تو دین بیزار طبقہ سر اٹھاتا جارہا ہے جو اخلاقی و روحانی اقدار کو دقیانوسی قرار دیکر مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی کوشش اور آزادی اظہار رائے کے نام پر دجالی فکر کو پروان چڑھانے میں کوشاں ہے۔ اقبالؒ نے ایک صدی قبل ایسے درفتن کی عکاسی کی:
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
جامعہ مسجد ملک ریاض کے خطیب مفتی حبیب الرحمان مدنی نے کیا خوبصورت بات کی کہ ہم اللہ کے کہنے پہ ایک ماہ کیلئے حلال اور طیب چھوڑ دیتے ہیں مگر زندگی بھر اس کے حرام کردہ کاموں کو نہیں چھوڑتے۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری، قومی دولت کا ناجائز استعمال، حرام کاری و حرام خوری، ذخیرہ اندوزی، مفادات پرستی، جھوٹ، بددیانتی، فحاشی یہ سب حرام ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک ماہ کیلئے تو حلال و طیب بھی چھوڑا مگر زندگی بھر کیلئے حرام کردہ افعال سے دستبردار کیوں نہیں ہوتے؟ کبھی سوچا کہ ہم اتنے بے خوف کیوں ہوگئے۔ بالخصوص رمضان میں کہ کچھ عرصہ قبل تک عبادات کا خصوصی اہتمام اور اکثریت طاعات و عبادات کی طرف مائل ہونے کا رجحان کیوں دم توڑتا نظر آرہا ہے۔ تیز رفتار ترقی نے کیوں جبینوں سے سجدوں کی لذت چھین لی اور آنکھوں کے آنسو خشک کر دیئے؟ ایک سکالر نے کیا خوب کہا کہ اب شرمندگی اور ندامت کے سوا اور ہمارے پاس ہے ہی کیا! مگر ٹھریئے، اگر ایک لمحہ کیلئے بھی ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی، ضمیر بوجھل ہوا تو مطلب صلح کی گنجائش ابھی باقی ہے کہ جس نے چند ثانیہ ہی سہی ندامت پر مجبور کیا۔ یقین جانئے کہ معاشرے کے 90فیصد سے بھی زائد کے احوال یہی ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں اور غم روزگار کے دھندوں نے سوچ کے زاویے ہی بدل دیئے۔ معاشرہ اجتماعی طور پر زبان اور کلام کی سلامتی سے محروم ہوا تو ادب جاتا رہا۔ زبان و بیان کا، اعمال و افعال کا، چھوٹے بڑے کا، استاد شاگرد کا، فحاشی کا کلچر عام ہوا تو آفات نے آن گھیرا کہ جس کی وعید تھی: بے موسم بارشیں، کثرت سے زلزلے، موسمیاتی تغیرات، کہیں لوگ پانی کی بوند کو ترسیں تو کہیں آدھا ملک سیلاب میں۔ رہی سہی کسر معاشی و معاشرتی ناہمواریوں نے نکال دی۔ یہ نوبت شاید اتنی جلدی نہ آتی اگر اساتذہ، والدین اور ریاست نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوتیں۔ سیاسی و مذہبی طبقات باہم برسر پیکار ہیں۔ آوازیں بلند اور شائستگی رخصت، اختلاف کے آداب بھی گئے، ہر فرد کی زبان گویا نشتر، معاشرے پر بدگمانی، جھوٹ، ریاکاری، بہتان تراشی، تذلیل کا راج۔ اصلاح کی آوازیں اس شور میں دب کر رہ گئیں۔ حلم اور برداشت مفقود اور دلیل کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں۔ راہنمایان قوم کے اخلاق و کردار کے وبال کا خمیازہ معاشرہ بھگت رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدل بانجھ ہوگیا! ناانصافی کے راج نے کمزور اور طاقتور طبقات کے مابین فرق کو مزید واضح کر دیا۔ ہر فرد ملک و ملت کی فکر سے آزاد اپنی ذات کے حصار میں گم۔ حال یہ ہوچکا کہ ’’پاک ہے گرد وطن سے سر دامن تیرا، تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا‘‘ ان سب رزائل کے باوجود اس کی طرف سے صلح کی کوششیں تھیں اور ہیں مگر افسوس کہ ہم آمادہ نہیں، لوگو یہ جان لو کہ
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button