ColumnImtiaz Aasi

آئین سے انحراف نئی بات نہیں .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ٓٓٓٓسیاست دانوں کا آئین سے انحراف کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے سیاست دانوں نے آمروں سے مل کر ہمیشہ آئین کو منسوخ کیا۔ ایوب خان سے ضیاء الحق کے دور پر نظر ڈالیں تو سیاست دانوں نے آئین سے روگرانی کی۔ ہمیں یاد ہے ضیاء الحق نے تہران ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا آئین کیا ہے، دس صفحات کی کتاب ہے، جسے وہ اٹھا کر باہر پھینک دیں گے، پھر چشم فلک نے دیکھا بھٹو کیخلاف پی این اے کی تحریک چلانے والے اور جمہوریت کے علمبرداروں عبدالولی خان، نواب زادہ نصراللہ خان، شیر باز مزاری، پروفیسر غفور اور مفتی محمود نے ببانگ دہل ضیائی مارشل لاء کا ساتھ دیا۔ سیاست دان آئین کا احترام کرتے تو ملک میں کبھی آمریت نہیں آسکتی تھی۔ سیاست دان آج اسی طرح کے حالات پیدا کرکے مارشل لاء کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست کہا ہے سیاسی اور معاشی بحران پیدا کرکے غیر جمہوری قوتوں کو دعوت دی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن کے انعقاد میں مخلص ہوتیں تو اپوزیشن سے مل کر اکتوبر سے پہلے کی کوئی تاریخ مقرر کرکے سیاسی بحران کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ حالات و واقعات سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا حکومت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں مخلص نہیں ورنہ موجودہ بحران کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ دراصل سیاست دان آئین پر عمل درآمد نہ کرکے سپریم کورٹ نہیں اپنے بنائے ہوئے آئین کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں ایک سے ایک بڑھ کر قانون دانوں کی موجودگی کے باوجود ان کا آئین سے انحراف پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کا معاملہ عمران خان کا نہیں بلکہ آئین کے وقار کی بات تھی جسے سیاست دانوں نے ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ گو آئین کی پاسداری کا فقدان پہلے سے تھا عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد سے گریز سے سیاسی جماعتوں نے ثابت کر دیا انہیں ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ نصف صدی سے اقتدار پر قابض سیاست دان عوام کا خون چوس رہے تھے، درمیان میں عمران خان نے سیاست میں قدم رکھ کر ان کا کھیل خراب کر دیا۔ دہائیوں سے دو جماعتوں کے محکوم عوام کو عمران خان کی صورت میں رہنما ملا جس نے کرپٹ سیاست دانوں کو عوام کے سامنے برہنہ کر دیا۔ قارئین کو یاد ہو گا اس سے قبل اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی الیکشن پر رضامند ہو جائیں تو جے یو آئی کے امیر فضل الرحمن رضامند نہیں ہوں گے۔ اگرچہ جے یو آئی کے امیر عمران خان کو سیاست دان تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ مولانا کی عمران خان سے ناراضی کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے تحریک انصاف نے کے پی کے میں جے یو آئی کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا۔ عمران خان دیگر سیاست دانوں کی طرح منی لانڈرنگ کرکے بیرون ملک جائیدادیں بناتے تو انہیں مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑتا نہ الیکشن کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوتی۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نیب ترامیم کا فائدہ عمران خان کو بھی مل جاتا اور وہ بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی شریک سفر ہو جاتے تو تحریک انصاف کو الیکشن کے لئے سپریم کورٹ جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ حقیقت تو یہ ہے عمران خان کی جدوجہد نے عوام کے ذہنوں کو بدل دیا ہے ان کی جدوجہد کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو ہوا ہے۔ پنجاب جو کبھی مسلم لیگ نون کا گڑھ تھاتحریک انصاف نے پنجاب میں شریف خاندان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو عمران خان سے خائف ہونے کی ضرورت اس لئے نہیں پنجاب اور کے پی کے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک برائے نام ہے لہذا عمران خان کی جدوجہد کاسب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو ہوا ہے۔ اب تو معاملہ عدالت عظمیٰ کی عزت وتکریم کا ہے جناب چیف جسٹس نے درست کہا ہے وہ الیکشن کی تاریک بدل نہیں سکتے۔ سوال ہے کبھی عدالتوں نے فیصلہ کرکے بدلہ ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت فیصلہ کرتی ہے وہ کیسے بدلہ جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں کو بات سمجھ آنی چاہیے چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آپس میں بات چیت کرنے کا موقع فراہم کرکے احسن اقدام اٹھایا ہے۔ حکومت کا الیکشن سے فرار سمجھ میں آتا ہے تحریک انصاف نے امیدواروں کو ٹکٹ دے دئیے ہیں مسلم لیگ نون نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا معاملہ موخر کر دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرکے آلودہ سیاسی ماحول کر صاف کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تعریف جنا ب چیف جسٹس نے بھی کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی سیاسی جماعتوں میں بات چیت کا آغاز کر دیا ہے کہیں ایسا نہ ہو سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کا معاملہ اتنا طوالت نہ پکڑے کہ اکتوبر قریب آجائے۔ موجودہ سیاسی حالات میں بہتری تو اسی میں ہے حکومت تحریک انصاف سے بات چیت کرکے جیسا کہ سراج الحق صاحب کی تجویز ہے انتخابات ایک ہی مرتبہ جولائی اگست میں کرا لئے جائیں سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو سیاسی بحران کے ساتھ معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں پہلے تنگ ہیں ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہو جائے گا، سیاست دانوں کو ذاتی مفاد کے خول سے نکلنا ہوگا۔ جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار سیاست دان ہوں گے۔ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے میں چلتی حکومتوں کا خاتمہ کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارکر پارٹی ورکرز کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت رہتی تو وہ عوام کی زیادہ خدمت کر سکتے تھے۔ ملک کی بدقسمتی دیکھئے جب تک تمام ادارے ساتھ نہ ہوں عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ حکومت کو بعض اداروں کی آشیرباد حاصل نہ ہوتی تو موجودہ صورت حال پیدا نہ ہوتی، البتہ آنے والے چند دن میں تمام صورت حال واضح ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button