Column

مثالی عید .. مفتی محمد وقاص رفیع

مفتی محمد وقاص رفیع

عید مسلمانوں کا مشہور مذہبی تہوار کا دن کہلاتا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے دو دن عید کے مقرر کئے ہیں۔ ایک دن عیدالفطر کا اور دوسرا عیدالاضحیٰ کا ۔ یہ دونوں دن ہر سال تین دن تک مسلمانوں میں انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کا تو تین دن تک منانا سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تین دن تک قربانی کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ لیکن عیدالفطر کا تین دن تک منانا سمجھ میں نہیں آتا ۔ شاید عیدالفطر کو عید الاضحیٰ پر قیاس کرتے ہوئے تین دن منایا جاتا ہو۔ بہرحال عید کا دن مسلمانوں کے لئے خوشی اور مسرت کا ایک مبارک دن ہوتا ہے۔ عیدالفطر کے دن مسلمان مہمان مہینہ ماہِ رمضان کو الوداع کہتے ہیں اور صدقہ فطر ادا کرتے ہیں جبکہ عید الاضحیٰ کے دن اضحیہ یعنی قربانی جیسی عبادت کا استقبال کرتے ہیں اور اسے بجا لاتے ہیں ۔ خوشی کے ان دونوں دنوں میں تمام مسلمان ایک جگہ جمع ہوکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ برسوں اور مہینوں سے بچھڑے لوگ آپس میں ملاقات کرتے ہیں اور گزشتہ لغزشوں اور بھول چوک پر ایک دوسرے سے معافیاں مانگتے ہیں ۔ اس دن اچھے اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ نئے کپڑوں اور نئے جوتوں میں ملبوس چہار سو مسلمان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ بلا شبہ مسلمانوں کے یہ دو عظیم الشان مذہبی تہوار ان کے لئے کسی بھی خوشی اور مسرت سے کم نہیں ہوتے۔ اسلام خوشی کے ان دونوں مواقع پر اپنے ماننے والوں کو غیر مسلموں کی طرح لہو و لعب، کھیل کود اور تماشا منانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اُس کی یاد کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ کہیں مسلمان بندہ دُنیا کی اِن عارضی اور فانی خوشیوں میں گم ہوکر اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور اُس کے غریب ، نادار اور مفلس بندوں کی خدمت و ہم دردی سے غافل نہ ہوجائیں، اِس لئے اُس نے مسلمانوں کو خوشی کے ان دونوں دنوں میں دو مخصوص عبادات کا بھی پابند بنایا ہے۔ چنانچہ عیدالفطر کے موقع پر تو یہ حکم دیا ہے کہ عید سے پہلے رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھیں اور اس کے بعد عیدالفطر کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کریں اور اس کے بعد عید منائیں۔ جبکہ عید الاضحیٰ کے موقع پر یہ حکم دیا ہے کہ عید کی نماز ادا کر لینے کے بعد صاحب نصاب لوگ جانوروں کو اللہ کے راستہ میں قربان کریں اور اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سنت کو زندہ کریں۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں عیدوں میں جو دو مخصوص عبادات ( عیدالفطر میں صدقہ فطر اور عید الاضحیٰ میں قربانی) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوپر لازم کی ہیں ان کا اصلی اور حقیقی مقصدیہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور رزق کی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ لوگ غریب ، لاچار اور نادار مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرکے انہیں بھی عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ وہ احساس کم تری کا شکار نہ ہوسکیں۔ اسلامی معاشرے کی تاریخ میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایثار و ہمدردی کے بڑے عجیب و غریب واقعات ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خطیب بغدادی رحمۃ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف تاریخ بغداد میں امام و اقدی رحمۃ اللہ کے حالات میں لکھا ہے۔ امام واقدی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقوں تک نوبت پہنچی۔ گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد آمد ہے اور گھر میں کچھ بھی نہیں۔ بڑے تو صبر کر لیں گے لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟۔ یہ سن کر میں اپنے ایک تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیا اور بارہ سو درہم کی سربمہر تھیلی میرے ہاتھ تھما دی۔ میں گھر آیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا۔ اس کے گھر بھی افلاس و غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرض رقم چاہتا تھا۔ میں نے گھر جا کر اہلیہ کو قصہ سنایا۔ وہ کہنے لگیں:کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے؟۔ میں نے کہا: تھیلی کی رقم نصف نصف تقسیم کر لیں گے۔ اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا، کہنے لگیں : بڑی عجیب بات ہے۔ آپ ایک عام آدمی کے پاس گئے، اس نے آپ کو بارہ سو درہم دیئے اور آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا ایک شخص اپنی حاجت لے کر آیا ہے اور آپ اسے ایک عام آدمی کے عطیے کا نصف دے رہے ہیں۔ آپ اسے پوری تھیلی دے دیں، چنانچہ میں نے وہ تھیلی کھولے بغیر سر بمہر اس کے حوالے کر دی۔ وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اس کے پاس گیا۔ کہا: عید کی آمد آمد ہے۔ گھر میں کچھ نہیں، کچھ رقم قرض چاہئے۔ ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سر بمہر اس کے حوالے کردی۔ اپنی ہی تھیلی اسی طرح سربمہر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے؟۔ وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑکر میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا قصہ سنایا۔ درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا، و ہ سارا مجھے دے گیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی دوست کے پاس چلاگیا تھا۔ ہاشمی دوست نے جب وہ حوالے کرنا چاہا تو راز کھل گیا۔ ایثار و ہمدردی کے اس انوکھے واقعہ کی اطلاع جب وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس پہنچی تو وہ دس ہزار(10000)دینار لے کر آئے۔ کہنے لگے: ان میں دو ہزار(2000)آپ کے، دو ہزار (2000)آپ کے ہاشمی دوست کے، دو ہزار(2000)تاجر دوست کے، اور چار ہزار(4000)آپ کی اہلیہ کے ہیں۔ کیونکہ وہ تم میں سب سے زیادہ قابل قدر اور لائق اعزاز ہے۔ یقینا انسانی ہمدردی اور ایثار ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو اس کے من میں بھائی چارگی اور رحم دلی کے ان گنت پھول کھلنے لگتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button