Column

حامد میر سے شہید ارشد شریف تک زنجیر عدل ہلنے کے منتظر

قاضی محمدشعیب ایڈووکیٹ

پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس کے لیے قلم کے مزدوروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر آزادی صحافت کے پرخار راستوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا میں اپنا لوہا منوایا ۔ اس صحافتی آزادی کو کچلنے کے لیے پاکستان کے حکمران طبقے سے اپنے اپنے دور میں فعال صحافیوں کے خلاف قوانین بنائے اور انھیں تخت مشق بنایا ۔ پاکستان کے سیاستدان بھی عجیب ہیں جب اپوزیشن میں ہوں تو صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اظہار یک جہتی کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب برسر اقتدار ہوں تو صحافیوں کو اپنے ہم نوا بنانے اور ان کی زبان بندی کے لیے تمام ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔ حیران کن امر ہے کہ ریاست کے دیگر تین ستون عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ بھی اس دور میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے تناظر میں پاکستان کے معروف سینئر صحافیوں حامد میر پر 19اپریل 2014میں کراچی میں ہونے قاتلانہ حملے اور ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تین رکنی بینچ بھی تشکیل دئیے گئے۔ اس دوران صحافی ارشد شریف نے اپنے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق کے توسط سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کے لیے جب اسلام ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تو وزارت داخلہ نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفاد میں کمیشن کی رپورٹ جاری کرنا ممکن ہی نہیں۔ حامد میر کے مطابق اگر ان کی رپورٹ پبلک ہوجاتی تو ارشد شریف کی جان بچ سکتی تھی۔ اس طرح صحافی مدثر نارو گزشتہ پانچ سال سے لاپتہ ہے جس کی والدہ پاکستان کے تمام مقتدر حلقوں کے سامنے فریاد کر رہی ہے۔ عیدالفطر سے قبل اس کے لاپتہ بیٹے سے کم از کم زندہ ہونے کی تسلی ہی دلادیں مگر بدقسمتی سے تمام ادارے خاموش ہیں۔ صحافیوں اور ان کے متاثرہ خاندانوں بار بار کی استدعا کے باوجود عدالت کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانا انصاف میں تاخیر انصاف میں انکار کے مترادف ہے۔ پاکستان کے نڈر اور بے باک سینئر صحافی ارشد شریف عوام کے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑتے لڑتے 3اکتوبر 2022کی شب کینیا کی پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور بروز جمعرات 27اکتوبر 2022کو وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد کے سیکٹر H-11قبرستان میں لاکھوں اشک بار آنکھوں کے سامنے ابدی نیند سو گیا۔ جن کی شہادت کے بعد پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔ پوری قوم ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہے۔ شہید صحافت ارشد شریف کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پورے ملک سے آئے ہوئے عوام کا جم غفیر عوام میں اس کی مقبولیت کی ایک روشن دلیل ہے۔ جو اپنے عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بقول شاعر: بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
قدرت کا بڑا عجیب اتفاق ہے کہ موت کے روز ہی 27اکتوبر2022 کو ا رشد شریف نے پاکستان واپس آنا تھا اور 15اکتوبر2022کو بول ٹی وی چینل میں اپنے ایک نئے پروگرام کا آغاز کرنا تھا۔ لیکن زندگی نے مہلت نہ دی۔ ارشد شریف جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی آواز بلند کرنے والے قلم کار تھا جو پاکستان سمیت پور ی دنیا کے قانون پسند عوام کی آواز بن کر صحافتی دنیا میں ابھرا ۔ ان کی شہادت کے بعد تحقیقی صحافت میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ بقول شاعر:
سنے کون قصہ درد دل، میرا غم گسار چلا گیا
جسے آشنائوں کا پاس تھا، وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو میرے چاند کی، جو تہہ مزار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا درد دل ، وہ جو پوچھتا تھا غم دوراں
وہ گدا نواز بچھڑ گیا، وہ عطا شعار چلا گیا
ہمیں کیوں نصیر نہ اشک غم، رہے کیوں نہ لب پہ میرے فغاں
ہمیں بیقرار وہ چھوڑ کر سر راہ گزار چلا گیا
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ارشد شریف اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم میں شامل تھا۔ جس کا اعتراف عمران خان نے خود عوامی جلسوں کے دوران اپنی مختلف تقاریر میں بھی کیا کہ انہوں نے اسے بار بار ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا اور اب عمران خان نے اس کی شہادت کو لانگ مارچ کا سیاسی بیانیہ بنا دیا۔ جبکہ ارشد شریف کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے کے خلاف 16مقدمات قائم کر کے اسے پاکستان چھوڑنے کے لئے جن سازشی عناصر نے مجبور کیا ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرتے ہوئے ارشد شریف کے خون ناحق کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ارشد شریف نے اپنی جان کے تحفظ کے لیے صدر پاکستان اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی خط لکھے۔ ارشد شریف یکم جون 2022کو سینٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی کے روبرو بھی پیش ہوئے اور اپنے خدشات سے آگاہ کیا جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔ 26اکتوبر2022 کی شب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ارشد شریف کے ساتھ گہری دوستی کا دم بھرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کی سازش پاکستان کے اندر تیار کی گئی جس کے تمام ٹھوس ثبوت ان کے پاس موجود ہیں وہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی ارشد شریف کے پر اسرار قتل کے پس پردہ محرکات اور سازشی عناصر کے نام بے نقاب نہیں کیے اور آدھے گھنٹے میں پریس کانفرنس ختم کرکے روانہ ہو گئے۔ ارشد شریف کے افسوسناک قتل کے حوالے سے پاک فوج کا موقف پیش کرتے ہوئے 27اکتوبر2022کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے 5اگست 2022کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا اور ارشد شریف کو سرکاری گاڑی میں پشاور ایئر پورٹ پہنچایا کر دبئی کے لیے روانہ کیا گیا۔ جبکہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے گیا ہے جو تمام حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لے کر 30روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہو گا۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اللہ کے مطابق تھریٹ الرٹ جاری ہونے کے بعد ہی کینیا میں ارشد شریف قتل ہو گیا۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، اے آر وائی چینل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال اور کینیا میں موجود اسی ٹی وی چینل کے ملازمین خرم اور وقار کو ارشد شریف کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ارشد شریف کے صحافتی دوست بھی تمام حقائق جاننے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہے اور کسی فورم پے اس کی مدد نہیں کی جو سینٹ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی ارشد شریف کے ساتھ تھے۔ عمران خان اگر چاہتے تو اسے ملک چھوڑنے کا مشورہ دینے کی بجائے اپنے بنی گالہ یا خیبر پختونخوا میں بھی پناہ دے کر اس کی جان بچا سکتے تھے۔ سیاسی جلسوں اور لانگ مارچ کے دوران ارشد شریف کی لاش پر ماتم کنا ہونے سے معاملہ ایک سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ جس کے باعث موت کی تحقیقات متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کا شدید نقصان پہنچا۔ کینیا جیسے کرپٹ ملک کے عدالتی نظام سے بھی انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جہاں پولیس کو بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کے بے پناہ اختیارات اور کینیا کے قوانین کے تحت پولیس کو بھی سزا کا مکمل استثناء حاصل ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کینیا پولیس نے ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنک پر اپنا موقف تبدیل کر کے اسے پولیس مقابلہ قرار دے دیا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین نے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے پاکستان کے محب وطن اور محنتی صحافی کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس کا انجام انصاف کا قتل ہے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد صحافی برادری میں بھی گہری تشویش اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور پارلیمنٹ کے درمیان جاری اختیارات کے ٹکرائو کے نتیجے میں ملک میں آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ اس دوران میرے صحافی بھائیوں ان کے متاثرہ خاندانوں کی جانب سے بار بار استدعا کے باوجود عدالت کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانا انصاف میں تاخیر انصاف میں انکار کے مترادف ہے جو تاحال زنجیر عدل ہلنے کے منتظر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button