ColumnRoshan Lal

اسرائیلی عدلیہ اور پاکستانی عدلیہ .. روشن لعل

روشن لعل

ان دنوں اسرائیل اور پاکستان میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ملکوں میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان چپقلش نظر آرہی ہے۔ دونوں ملکوں میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان چپقلش تو موجود ہے مگر یہ فرق بھی ہے کہ پاکستان میں اگر پارلیمنٹ کے مقابلے میں عدلیہ کے صرف ایک خاص سیاسی گروہ کے لوگ اور وکیل حامی ہیں تو اسرائیل کی عدلیہ کو وہاں کے ہر شعبہ زندگی کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کیوں جاری ہے ، اس سے تقریبا ہر کوئی آگاہ ہے اس لیے یہاں صرف یہ ذکر کیا جائے گا کہ اسرائیل میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان چپقلش کا پس منظر کیا ہے۔ اسرائیل، دنیا کے ان چند ایک ملکوں میں شامل ہے جس کا کوئی تحریری آئین نہیں بلکہ بنیادی تیرہ قوانین کو آئین کا درجہ حاصل ہے۔ ان تیرہ قوانین کے مطابق عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ یہ سمجھے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ کوئی قانون، بنیادی تیرہ قوانین کے منافی ہے تو وہ اسے رد کر سکتی ہے۔ آج کل اسرائیل میں عدلیہ اور پارلیمنٹ یا پھر حکومت کے درمیان جاری چپقلش کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بنیاد پرست وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے جوڈیشل ریفارمز کے نام سے ایک ایسا ڈرافٹ بل تیار کیا ہے جس کے پاس ہونے پر سپریم کورٹ کا پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو رد کرنے کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ بنیامن نیتن یاہو کے ڈرافٹ بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے قانونی فیصلے ویٹو کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کا اختیار ایک ایسی گیارہ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے جس میں نئی پالیسی کے مطابق اکثریتی اراکین کا تعلق حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی یا حمایتیوں سے ہوگا۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو رد کرنے کا اختیار تو سپریم کورٹ کے پاس ہی رہنے دیا گیا ہے مگر اس اختیار کے استعمال پر یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو رد کرنے کا فیصلہ کرتے وقت جب تک سپریم کورٹ کے پندرہ رکنی بنچ میں شامل تمام جج موجود نہیں ہونگے اس وقت تک فیصلے کا نفاذ نہیں ہو سکے گا۔ مذکورہ شرط کے باوجود بھی اگر سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو رد کرنے کا موقع مل جائے تو اس کے بعد بھی پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو سادہ اکثریت سے ختم کر دے۔ جب پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر دے گی تو پھر سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے اس عمل کو رد کرنے کا حق حاصل نہیں رہے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس بل کی وجہ سے اسرائیل میں عدلیہ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے تصور کی جارہی ہیں ،آخر بنیامن نیتن یاہو کو اسے تیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل میں آج نیتن یاہو کی جو حکومت موجود ہے اس کی اتحادی ایک ایسی بنیاد پرست جماعت ہے جس کے گیارہ اراکین اسمبلی کی اکثریت پر بنیاد پرستی کے ساتھ ساتھ انتہائی بدعنوان ہونے کا بھی الزام ہے۔ اس جماعت کا آریا ڈری نامی رکن اسمبلی جو نیتن یاہو حکومت میں وزیر داخلہ بھی ہے ، ان دنوں بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے ایسے الزامات کی زد میں ہے جن میں اس کی سزا یقینی تصور کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اگر آریا ڈری کو سزا ہو گئی تو اس کے بعد اسی کی طرح کے الزامات کی زد میں آنے والے اس کے اتنے ساتھی بھی سزا یافتہ اور نااہل قرار پائیں گے کہ نیتن یاہو کی حکومت قائم رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ لہذا اپنی حکومت کا ممکنہ خاتمہ ٹالنے کے لیے نیتین یاہو نے سپریم کے اختیارات سلب کرنے کی کی کوشش کی۔
بنیامین نتین یاہو نے سپریم کورٹ کے اختیارات سلب کرنے کی کوشش تو کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ اس کے ڈرافٹ بل کی مخالفت اور عدلیہ کی حمایت میں پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا۔ گزشتہ دنوں اسرائیل میں ایک دن ایسا بھی آیا جب بنیامن نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کرنے والے ساڑھے چھ لاکھ لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ ان لوگوں کو اسرائیل کی کل آبادی کا 7فیصد کہا گیا۔ اتنے بڑے احتجاج کے بعد نیتن یاہو کو سپریم کورٹ کو بے اختیار کرنے والے قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا عمل ملتوی کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ لگ رہا ہو کہ پاکستان میں بھی پارلیمنٹ ، عدلیہ کے ساتھ وہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کوشش اسرائیلی وزیر اعظم نے کی، مگر حقائق جاننے کے بعد ایسا ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایسا اس لیے نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ گلوبل اکانومی ڈاٹ کام کے سروے کے مطابق اگر 192ملکوں میں کارکردگی کے لحاظ سے اسرائیلی عدلیہ کو 33ویں تو ہماری عدلیہ کو 138ویں نمبر پر رکھا گیا گیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 62ایسے ملکوں کی فہرست تیار کی جن کی عدلیہ میں کرپشن کا عنصر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان ملکوں میں پاکستان کا تو کہیں دور دور تک نام نشان موجود نہیں مگر اسرائیلی عدلیہ کا نمبر 17واں ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عدلیہ پر کسی کے عدالتی قتل جیسا کوئی الزام نہیں، اسرائیلی عدلیہ پر کبھی کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ اس نے غیر شرعی الزام کی زد میں موجود کسی شخص کو صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا ہو۔ اسرائیلی عدلیہ کے لیے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس نے بد عنوانی کے ایک جیسے الزام کے تحت توڑی گئی دو مختلف جماعتوں کی حکومتوں میں سے ایک کے انہدام کو درست اور ایک کو غلط قرار دیا ہو۔ اسرائیلی عدلیہ اس الزام کے زد میں بھی نہیں ہے کہ اس نے کسی آمر جرنیل کو آئین میں اپنی مرضی کے تحت ترامیم کرنے کی اجازت دے دی ہو۔ اسرائیلی عدلیہ میں کوئی ایسا چیف جسٹس نہیں گزر ا جس نے دھرتی کو ماں جیسا بنانے کے دعوے کر نے کے بعد ملک میں عدالتی مارشل لا لگانے کی کوشش کی ہو۔ اسرائیل میں کوئی ایسا چیف جسٹس نہیں گزرا جس نے کسی رکن پارلیمنٹ کو اپنی جماعت کی پالیسی کے برعکس ووٹ دینے پر رکنیت ختم کرنے کے ساتھ ، ووٹ گنتی میں شمار کرنے کی دوہری سزا دی ہو ۔ اسرائیلی عدلیہ کے ریکارڈ میں کوئی ایسا فیصلہ موجود نہیں ہے کہ کسی کو پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پر تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہو۔ اسرائیلی عدلیہ کے ریکارڈ کا یہ بھی فرق ہے کہ اس کی سپریم کورٹ کے ججوں میں اس وقت کوئی تفریق نظر نہیں آرہی۔ اس کے ججوں نے نہ کبھی بنیادی قوانین کے برعکس کام کیا اور نہ ہی وہاں آئین سمجھے جانے والے بنیادی قوانین کو نئے سرے سے تحریر کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی عدلیہ کی اس کردار کی وجہ سے ہی وہاں کے ٹریڈ یونین لیڈر، ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ، فوجی پائلٹ ، ڈپلومیٹ اور حتیٰ کے حکومتی وزیر دفاع تک حکومت کی نام نہاد جوڈیشل ریفارم کے خلاف نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہاں ایک خاص گروہ کے علاوہ عوام کی اکثریت عدلیہ کی حمایت کرنے کے بجائے اس کے سابقہ کردار کو زیر بحث لانے پر مجبور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button