Column

مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر بہیمانہ تشدد .. ماں جی اللہ والے

ماں جی اللہ والے

دنیا بھر میں مسلمان رمضان المبارک کے مہینہ کے دوران زیادہ تر عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب مسلمان مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف تھے، ایک بزرگ خاتون مسجد کے احاطے میں قرآن پاک پڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک سٹن گرینیڈ بزرگ خاتون کو سینہ پر لگا اور وہ شدید زخمی ہوگئیں اس کے ساتھ ہی قابض اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں دھاوا بول کر عبادت میں مصروف نمازیوں پر تشدد کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں درجنوں نمازی زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی پولیس نے جس طرح نمازیوں پر بہیمانہ تشدد کیا اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھ کر نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی پولیس نے نمازیوں پر تشدد کرنے کے بعد انھیں باندھ کر مسجد میں اوندھے منہ لٹا کر نہ صرف مقدس مقام کی بے حرمتی کی بلکہ انسانیت کی بھی کھلے عام تذلیل کی ہے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی ؐ کے بعد تیسری مقدس ترین جگہ ہے جس کی جانب سفر کرنا بھی باعث برکت ہے۔ اس مقدس مسجد کو قبلہ اول اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ نماز فرض ہونے کے بعد16سے17ماہ تک مسلمان اس کی جانب ہی رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے، ہجرت مدینہ کے بعد اللہ کی طرف سے حکم آیا کہ اب مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کریں۔ مسجد اقصیٰ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد ﷺسفرِ معراج کے دوران براق کے ذریعے مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے اوریہاں تمام انبیاء ؑکی امامت کی اور پھر سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو انھوں نے مسجد کے اندر اور اس کے اردگرد کئی گرجا گھر، رہنے کے لئے کمرے اور اناج کو محفوظ کرنے کے لئے گودام بنا لئے۔ مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے تقریباً16جنگیں لڑیں اور آخر کار 583ھ میں بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ تاریخ کے مطابق سلطان صلاح الدین ایوبی ؒمسجد اقصیٰ کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کے دوران ایک منبر ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ملنے کے بعد اس منبر کو مسجد اقصیٰ میں نصب کروا سکیں۔ جب بیت المقدس فتح کرلیا گیا تو مسجد اقصیٰ میں عیسائیوں کی جانب سے کی گئی تعمیرات اور نشانات کو ختم کرنے کے بعد مسجد کی محراب سمیت ازسر نو تعمیر کی گئی اور اس منبر کو نصب کر دیا گیا جو سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ اپنے ساتھ لائے تھے۔ 595ھ میں ایوبی خاندان نے پہلی بار مسجد کو عرقِ گلاب سے غسل دیا۔ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرلیا اور سازش کے تحت یہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی جس کے نتیجہ میں یہاں یہودی آباد ی بڑھنے لگی۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے کے بعد عرب کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ کے نتیجہ میں فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر اسرائیلی قابض ہو گئے جبکہ مشرقی یروشلم ( بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ جون 1967ء میں جب عرب اور اسرائیل کے درمیان تیسری جنگ ہوئی تو اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی اپنا ناجائز تسلط جما لیا تب سے لے کر آج تک مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا ناجائز قبضہ ہے۔ اسرائیلی فورسز مقبوضہ بیت المقدس میں جوتوں سمیت گھس کر نہ صرف قبلہ اول کی بے حرمتی کرتے رہتے ہیں بلکہ عبادت میں مصروف نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ اور شیلنگ بھی ان کا معمول بن چکا ہے۔ قابض اسرائیلی اس بات پر بضد ہیں کہ مسجد اقصیٰ ان کی ملکیت ہے حالانکہ یونیسکو جو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے اور قدیم جگہوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اس نے عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں رائے شماری کے تحت یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی تاریخی جگہ اور ملکیت ہے۔ اقوام متحدہ نے جب فلسطین کو یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا تب یہودیوں نے اس فیصلے کو بڑی خوشی سے قبول کرلیا لیکن جب اقوام متحدہ کی جانب سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی ملکیت ہے تو اس فیصلے کو قابض اسرائیلی مسلسل ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور اسی پاداش میں مسجد میں نمازیوں کا خون پانی کی طرح بہاتے رہتے ہیں جبکہ مسلمان مسجد اقصیٰ میں عبادت کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں یہی جذبہ قابض اسرائیلی فورسز کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button