ColumnNasir Sherazi

چنوںوالا پلائو .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

مال روڈ سے مغلپورہ کی طرف رخ کریں تو تقریباً نصف کلو میٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد میرے ایک دوست کا گھر آتا ہے جو زمانہ زوال میں ہر کسی کے دوست ہوتے ہیں، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر کسی کا دوست دراصل کسی کا دوست نہیں ہوتا، مجھے ان کی طرف سے دعوت ملی کہ کل شام افطار ڈنر ان کے ساتھ کیا جائے، مجھے یہ بھی اطلاع ملی کہ ان کی رہائش گاہ کو مذہبی ٹچ ٹیکنالوجی کے تحت آستانہ عالیہ کا درجہ دیا جا چکا ہے، میں اس دعوت پر خاصا حیران تھا کہ میرا دوست جو عام حالات میں کسی کو چائے کی پیالی پلانے کا روادار نہیں ہوتا وہ اس دعوت کا اہتمام کیوں اور کیسے کر رہا ہے، ایک اور دوست سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو اس نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس دعوت کا ہی نہیں بلکہ ایسی کئی افطاریوں کا سپانسر مل چکا ہے لہٰذا آپ پورے اعتماد کی ساتھ جائیں۔ مقررہ دن میں وقت سے کچھ دیر پہلے وہاں جا پہنچا۔ سکیورٹی ناکے عبور کرنے کے بعد میرے دوست کا پرائیویٹ ناکہ تھا جہاں مجھے روک کر پوچھا گیا کہ آنے کا مقصد کیا ہے اور کیا ملاقات کا وقت طے ہے جس پر میں نے انہیں بتایا کہ تمہارا باس میرا چھبیس سالہ پرانا دوست ہے اور اس نے آج مجھے افطار ڈنر پر بلایا ہے، دربانوں نے مجھ سے دوسرا سوال کیا کہ کون سے افطار ڈنر پر آپ کو بلایا گیا ہے، میرے لئے یہ سوال خاصا احمقانہ تھا، میں نے اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے کہا کیا یہاں آج ایک سے زائد افطار ڈنر ہیں؟ جس پر مجھے بتایا گیا کہ ایک افطار ڈنر اذان مغرب کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ دوسرا رات گیارہ بجے کے بعد، میں یہ سن کر چنداں حیران نہ ہوا اور انہیں بتایا کہ میں پہلے افطار ڈنر کا مہمان ہوں، انہوں نے ایک تمبو کی طرف جانے کا اشارہ کیا جو گھر کے باہر لگایا گیا تھا۔ دریاں بچھی ہوئی تھیں، ان پر کچھ لوگ بیٹھے تھے، ایک طرف قالین بچھے تھے جہاں دو درجن کے لگ بھگ خواتین زرق برق لباس پہنے بیٹھی تھیں، انہیں دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہ سب آج کی دلہنیں ہیں یا زیادہ سے زیادہ کہا جاسکتا تھا کہ اگر آج ان کی بارات نہیں تو ولیمہ ضرور ہے۔ سب کے ہار سنگھار ایسے تھے جو انہی ایام میں کئے جاتے ہیں۔ میرا خیال تھا محمود و ایاز ایک ہی صف میں نظر آئیں گے لیکن ایسا نہ تھا بہت سے ایاز ایک طرف بیٹھے تھے جبکہ خواتین نصف دائرے میں دوسری طرف بیٹھی تھیں، سب کو محمود کا انتظار تھا، میں اجنبیوں اور شناسائوں سے سلام دعا کے بعد ایک کونے میں کھڑا ہوگیا اور صورتحال کا جائزہ لینے لگا، میرے قریب سے کچھ لوگ ایک بڑا سا خالی پتیلا لیکر قناتوں کے پیچھے چلے گئے پھر دو افراد برف کا بلاک لئے گزرے ان کے پیچھے دو افراد نظر آئے جنہوں نے لال شربت کی بوتلیں اٹھا رکھی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا، جب ٹھنڈی کھٹی میٹھی چیزیں کھا کر گلا خراب ہوجاتا تو ڈاکٹر صاحب دوا کے نام پر ایک لال شربت پینے کیلئے دیا کرتے تھے جو اس قدر بد ذائقہ ہوتا تھا کہ گلے سے نیچے اترنے کا نام نہ لیتا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں بھی لال شربت پینا پڑے گا، لال شربت کی تیاری کا عمل دیکھنے کیلئے میں بھی اسی کونے میں چلا گیا جہاں بڑے سے خالی پتیلے کے پاس کھڑے ایک شخص نے لال شربت والی بوتلیں کھول کر ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ پر شربت انڈیلا جس نے نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ شربت سے اپنے دونوں ہاتھوں کو مل مل کر دھویا پھر اس پتیلے کو پانی سے بھرا، ایک بڑے سے شاپر میں بھری ہوئی چینی اس میں انڈیلی، برف کے ٹکڑے ڈالے اور پتیلے میں پڑی تمام چیزوں کو اپنے صاف ستھرے ہاتھوں سے اس طرح ملانے لگا جیسے پانی میں چپو چلا کر کشتی کو آگے بڑھایا جاتا ہے، میں حیران و پریشان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ محفل نعت شروع ہوگئی، میں سامعین میں جا بیٹھا۔ آپ میں سے بیشتر دوست لال شربت کی تیاری کا کلپ سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہونگے اور آئندہ اس قسم کی دعوتوں میں لال شربت پینے سے تائب ہوچکے ہونگے۔
درود و سلام کے اختتام سے قبل ہی سامان افطار روزہ داروں کے سامنے سجا دیا گیا، افطار میں چند منٹ رہ گئے تھے مگر محمود کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ موذن نے اذان دینے کیلئے مائیک پر ٹھک ٹھک کی تو اچانک ہڑبونگ مچ گئی، سکیورٹی گارڈز کے حصار میں محمود اچانک برآمد ہوا اور خواتین انکلوژر میں آکر بیٹھ گیا جہاں سماں ویسا ہی تھا جیسے ’’ کو ایجوکیشن‘‘ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اذان شروع ہوئی تو سب نے روزہ افطار کیا، محمود کے قریب بیٹھی متعدد خواتین نے اسے کھجور اپنی ہتھیلی پر رکھ کر پیش کی، محمود نے سب کو بغور دیکھا، پھر ایک ہتھیلی سے کھجور اٹھا کر منہ میں رکھی، ساتھ ہی کسی نے ان کی طرف چاندی کا ایک بڑا سا مگ بڑھایا جس میں بادام اور چار مغز ملا خالص دودھ تھا، محمود نے ایک ہی سانس میں وہ ختم کیا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، اس کی دیکھا دیکھی مجھ سمیت سب نے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ محمود کی دعا ختم ہوگئی، مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ جس تیزی سے اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے، وہ محمود کے علم میں ہوگی، پس اس نے بھی اسی تیزی سے دعا مانگی اور ختم کی۔
میں نے محمود کے چہرے کو غور سے دیکھا وہ آیا تو نہایت ہشاش بشاش تھا۔ روزے رکھ رکھ کر اسے نقابت نہ ہوئی تھی بلکہ خوش خوراکی اور سکیورٹی خدشات کے سبب واک نہ کرنے سے اس کے وزن میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر روزے کی پیاس کے سبب پپڑی بھی جمی ہوئی نہ تھی بلکہ کھلے گلابی رنگ کی چیپ سٹک نمایاں تھی۔ محمود نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ پکوڑے و سموسے کھائیں پھر وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا، میں نے سوچا شاید وہ نماز مغرب کی امامت کیلئے اٹھا ہے لیکن وہ اچانک برق رفتاری سے گھر کے اندر چلا گیا جہاں اس کے خاص مہمان بیٹھے تھے، مجھ سمیت تمام ایاز اس کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ پنڈال میں موجود ایک باریش شخص نے امامت کرائی۔ مردوں نے نماز پڑھی، خواتین اس دوران ایک دوسرے سے پوچھتی رہیں کہ کس نے آج کا زیب تن کیا سوٹ کہاں سے خریدا ہے اور اس نے عید کی شاپنگ کرلی یا ابھی کرنا ہے، اس کے علاوہ اہم موضوع یہ تھا کہ کونسا بیوٹی پارلر تیاری کیلئے اچھا پیکیج آفر کر رہا ہے۔ خواتین کا ایک گروپ جن میں ان کی نوجوان بیٹیاں بھی شامل تھیں، اس بات پر بحث کر رہا تھا کہ چاند رات یہاں کتنے بجے اکٹھے ہونا ہے اور کون کون سے پارٹی نغموں پر کون کون رقص کرے گا اور جب محفل عروج پر ہوگی تو کون کون گھر کے اندر سے دولہا کو لیکر پنڈال میں آئے گا اور دیگر رسمیں کیا کیا ہونگی۔
چاند رات کی تیاریوں کے حوالے سے گفتگو جاری تھی کہ ایک مرتبہ پھر ہڑ بونگ مچ گئی پھر دیگیں کھڑکنے کی آوازیں آئیں، اس کے ساتھ ہی پلائو سے بھری ڈشیں لاکر روزہ داروں کے سامنے رکھ دی گئیں۔ یہ ڈشیں چنے والے پلائو کی تھیں، شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ افطار ڈنر میں مٹن پلائو کا اہتمام کیا گیا ہوگا، مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر اللہ کے نیک بندے جب اللہ کی راہ میں دیگیں اتارتے ہیں تو وہ سفید چنوں سے تیار کردہ پلائو کی ہوتی ہیں، جانے کس نے انہیں کہہ رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چنوں والا پلائو بہت پسند ہے یا شاید وہ اسکا زیادہ ثواب دیتا ہے، کہتے ہیں علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے، علم ہوگا تو معلوم ہوگا خدا کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ، مزید یہ کہ ’’ ایاک نعبدو‘‘ کے بعد ناچ گانا اور مجرے رچانا کہاں لکھا ہے، ہم قوم کو کدھر لے کر جارہے ہیں۔ رات گئے ہونے والے افطار ڈنر کا حال کبھی پھر سہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button