ColumnImtiaz Aasi

آئین کی بالادستی کے دعویدار .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے پارلیمنٹ میں طے ہونے والے معاملات عدالت عظمیٰ کے روبرو لائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ جو ہزاروں زیر التواء کیسوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، سیاسی امور میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ عدلیہ میں کسی معاملے میں جج صاحبان کے درمیان اختلاف رائے اور نہ سیاست دانوں میں کسی بات پر اختلاف نئی بات ہے۔ کس دور میں حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات نہیں ہوئے ہیں، سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان الیکشن کا معاملہ بات چیت سے حل ہوا تھا۔ 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے مابین محاذ آرائی عروج پر ہونے کے باوجود بہت سے معاملات پارلیمنٹ میں حل کئے گئے۔2007ء میں بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا۔ عدالتیں تو اس وقت مداخلت کرتی ہیں جب کوئی آئینی یا قانونی تشریح درکار ہو
ورنہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی امور آپس میں مل بیٹھ کر طے کرنے چاہئیں۔ جہاں تک عدلیہ میں نفاق ڈالنے کی بات ہے شریف خاندان کی تاریخ اس سے عبارت ہے۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں پیش آنے والے سانحہ سے سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا اعلیٰ عدلیہ کو ہدف تنقید بنانا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی سنیئر نائب صدر مریم نواز ہوں یا وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ، عدلیہ پر غیر ضروری تنقید ان کا وتیرہ ہے۔ سیاست دان آئین اور قانون کی باتیں تو کرتے ہیں آئین کی عمل داری کی بات آئے تو ان کے ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں۔ آئین اور قانون کو بھلا کر اعلی عدلیہ سے غیر ضروری توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کی تو حکومتی وزراء کا بیان تھا خان اسمبلیاں تحلیل کرے حکومت الیکشن کرا دے گی۔ عجیب تماشا ہے جو معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیں وہ عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہ سیاسی امور ایوان میں حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ جب سیاست دان ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو مطمع نظر بنا لیں تو قوم کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ آج کل دوچار ہے۔ دو صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئین کے تحت 90روز میں الیکشن ضروری تھا۔ حکومت آئین کے تحت الیکشن کرانے پر رضامند ہوتی تو تحریک انصاف کو سپریم کورٹ کے دروزاے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ الیکشن کا انعقاد ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ الیکشن کو طوالت دینے کے لئے کبھی کابینہ اور کبھی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں معاملہ لے جایا گیا۔ سیدھے سادے معاملے کو نہ صرف الجھا دیا گیا ہے بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے درمیان غلط فہمیاں پید ا کردی گئی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو داد دینی چاہیے جو سیاست دانوں کی غیر ضروری بیانات کو برداشت کر رہے ہیں۔ تعجب ہے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات میں اضافہ کرنے کے عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کا از خود نوٹس سیاسی جماعتوں کے نزدیک نقصان دے ہو سکتا ہے مگر عمومی طور پر مفاد عامہ کے لئے اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں رونما ہونے والے بہت سے ایسے واقعات اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس لینے کے بعد بہت کم وقت میں حل ہو جاتے ہیں۔ دراصل حکومت کو حالات کی سنگینی کا ذرہ احساس نہیں ہے۔ گو عمران خان کے دور میں عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مہنگائی کم کرنے کے لئے اقتدار سنبھالا تھا جواس کے گلے پڑ گئی ہے۔ باوجود اس کے ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے، مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری سے عوام فاقوں پہنچ چکے ہیں، حکومت اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سوچنی کی بات ہے بارہ جماعتی اتحاد میں سے ایک پارٹی ستر کی دہائی سے اقتدار میں چلی آرہی ہے اور دوسری جماعت اسی کی دہائی سے حکمرانی کرتی آرہی ہے۔ دونوں جماعتیں عوام کے مسائل حل کرتیں تو عوام
تحریک انصاف کی طرف نہ دیکھتے۔ موجودہ حکومت کے بارہ مہینوں میں مہنگائی میں 47فیصد اضافے نے عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے، باوجود اس کے اپنی ناکامیوں کا ملبہ عمران خان پر ڈالنے کی کوشش جاری ہے۔ عوام اتنے سادہ نہیں عمران خان نے عوام کو باشعور کر دیا ہے، لہذا عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم آئین پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس دوران کئی جماعتیں اقتدار کا مزہ چکھ چکی ہیں، آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تو کب کر چکی ہوتی۔ آئین میں ہر سیاسی مسئلے کا حل موجود ہے۔ یہ اور بات ہے آئین میں الیکشن کے لئے دیئے سے صر ف نظر کرکے الیکشن کو التواء میں رکھنے کے لئے کوشاں ہے ۔ قومی مفاد کی فکر ہوتی تو حکومت الیکشن کرانے میں کبھی لیت و لعل نہ کرتی۔ عمران خان نے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے اکتوبر میں انتخابات کے لئے رضامندی کا عندیہ دیا ہے جو ان کے رویے کا عکاس ہے۔ آئین کی بالادستی کے دعوے دار اقتدار کی خاطر آئین سے انحراف کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کی باتیں تو ہو رہی ہیں عملی طور پر اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ اصولی طور پر مذاکرات کے لئے حکومت کو پہل کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان الیکشن کے سوا کسی معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمان نے کئی ماہ پہلے کہہ دیا تھا خواہ کچھ ہو جائے وہ الیکشن نہیں کرائیں گے۔ پی ڈی ایم کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، اے این پی اے پی سی بلا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری بھی مذاکرات کے حق میں ہیں۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ آئین کی بالادستی کے دعوے داروں نے آئین کے ساتھ جو کھلواڑ شروع کر رکھا ہے اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ فنڈز کی عدم دستیابی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کی کمی محض ایک بہانہ ہے۔ حکومت نے الیکشن کرانا نہیں ہے عمران خان عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے بے تاب ہیں۔ ان حالات میں سمجھ داروں کو چاہیے وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button