ColumnZia Ul Haq Sarhadi

یوم شہادت سیدنا حضرت علیؓ شیر خدا .. ضیاء الحق سرحدی

ضیاء الحق سرحدی

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مولا علیؓ کا کعبہ میں پیدا ہونا آپؓ کے لیے شرف و کرامت ہے، بلاشبہ کسی حد تک یہ خیال درست بھی ہے، کیونکہ کعبہ شریف ہی وہ مقدس گھر ہے جسے بیت اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میدان خطابت کے شہسوار، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا مقام و مرتبہ منفرد و جدا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابو الحسن، ابو تراب ہے جو آپؓ کو رسول پاکﷺ نے خود عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپؓ کو ابوتراب ( یعنی مٹی کا باپ ) کہہ کر پکارا جاتا تو آپؓ بہت خوش ہوتے۔ آپؓ کے والد حضرت ابو طالب اور دادا حضرت عبدالمطلب ہیں۔ حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ہاشمی خاندان کی وہ پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔ سیدنا علیؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں سے ہے۔ آپؓ رشتہ مواخات میں نبی پاکﷺ کے بھائی ہیں اور دنیا اور آخرت میں بھی بھائی ہیں۔ آپؓ کی ولادت با سعادت 13رجب 30عام الفیل کو خانہ کعبہ میں ہوئی۔ ولادت کے تین دن تک آپؓ نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔ لوگ کہنے لگے کہ شاید آپؓ دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن جب نبی پاکﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی آغوش رحمت میں لیا تو آپؓ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ گویا آپؓ پیدا ہوتے ہی سرکارﷺ کے عاشق تھے اور دنیا میں سب سے پہلے جس مقدس ہستی کا آپؓ پہلی بار دیدار کرنا چاہتے تھے وہ رسولﷺ کی با برکت ذات ہے۔ آپؓ نے حضور پاکﷺ کے سایہ رحمت میں اپنی پرورش پائی۔ انہی کی گود میں ہوش سنبھالا اور علم الٰہی کے لامحدود خزانے سینہ نبوت سے حاصل کئے۔ آپؓ کی پہلی تربیت گاہ ہی گود نبوت و رسالت تھی۔ آپؓ نے سرکارﷺ کی باتیں سنیں، آپؓ کی عادتیں سیکھیں ، اسی لئے تو بتوں کی پوجا کی، نجاست سے آپؓ کا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا۔ یعنی آپؓ نے کبھی بت پرستی نہ کی اور آپؓ کو وجہہ اللہ کا لقب عطا ہوا۔ جس روز سرکار مدینہﷺ نے ہجرت فرمائی تو آپؓ کو اپنے بستر پر سونے کو حکم دیا اور فرمایا کی میرے بعد کفار مکہ کی امانتیں لٹا کر آنا۔ آپؓ نے اللہ کے نبی پاکﷺ کے حکم کی تعمیل فرمائی۔ عجب بات ہے کہ تلواروں کی چھائوں میں آپؓ اتنی سکون کی نیند سوئے کہ ایسی نیند پھر آپؓ کو کبھی نہ آسکی چونکہ آپ جانتے تھے کہ آج کی رات موت نہیں آسکتی۔ آپؓ جیسا بہادر پورے عرب و عجم میں کوئی نہ تھا۔ آپؓ کی ہیبت و دبدبہ سے بڑے بڑے بہادر لرزہ براندام تھے۔ آپؓ نے تمام غزوات میں سوائے غزوہ تبوک کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ شرکت فرمائی چونکہ غزوہ تبوک میں سرکارﷺ نے آپ کو اپنا خلیفہ بنا کر مدینہ منورہ میں چھوڑا تھا۔ غزوہ بدر میں آپؓ کی شمشیر ذوالفقار نے کفار کی کمر توڑ دی اور کفر کو لرزا دیا تھا۔ سرکارﷺ اپنے 313جانثاروں کے ہمراہ میدان بدر روانہ ہوئے۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ، سعد ابن ابی وقاصؓ اور زبیر ابن عوامؓ کو آگے بھیجا تاکہ مخالفین کے حالات کی خبر حاصل ہو سکے۔ آپؓ نے اپنی نوخیزی کے باوجود ولید کو موت کی آغوش میں سلا دیا۔ پھر آگے بڑھ کر شیبہ کا سر تن سے جدا کر دیا، آپؓ کے حملے سے نوفل ابن خولید بھی ڈھیر ہو گیا، ابو جہل اور اس کا بھائی عاص بھی اسی جنگ میں ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ ماہ رمضان میں ہوئی، میدان بدر میں قریش کے70نامور سورما مارے گئے،70اسیر بھی ہوئے اور مسلمانوں کو ٹھنڈی سانس لینے کی مہلت ملی۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ جنگ بدر میں پانچ ہزار فرشتوں نے مسلمانوں کی غیبی مدد کی اور حضرت علیؓ نے آدھے سے زیادہ کافروں کو تہہ تیغ کیا۔3ہجری میں ہونے والی جنگ احد ابو سفیان نے تین ہزار فوجیوں سمیت مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ مدینہ منورہ سے چھ میل دور احد کی پہاڑیوں میں ہونے والی لڑائی میں مسلمانوں کو سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا حتیٰ کہ سرکارﷺ کے چچا حضرت سیدنا حمزہ بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت علینے جنگ احد میں کفار و مشرکین کو حضور ﷺ سے دور رکھا۔ حفاظت رسولﷺ میں آپؓ کے جسم پر16ضربیں آئیں اور آپؓ کا ہاتھ بھی نیم شکستہ ہو گیا۔ زخموں کے باوجود آپؓ جفا کشی سے لڑتے رہے حتیٰ کہ آپؓ کی تلوار ٹوٹ گئی جس پر حضرت جبرئیلٌ نے آپؓ کو اللہ کی طرف سے ذوالفقار عطا کی۔5ہجری میں ہونے والی جنگ خندق میں کافروں کا شجاع ترین جرنیل عمرو ابن عبدو خندق پار کر کے خیمہ رسول ﷺ تک آپہنچا تو حضورﷺ نے اپنے اصحاب کو لڑنے کا حکم دیا جس پر حضرت علیؓ اس کے مقابلے پر گئے اور اس سے کہا کہ کلمہ پڑھ لے یا واپس چلا جا یا مقابلے پر آجا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا، نیچے اتر کر اس نے اپنے گھوڑے کے پائوں کاٹ دیئے۔ حضرت علیؓ نے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے۔ اسی جنگ میں سرکار دو عالمﷺ نے حضرت علیؓ کو کل ایمان کی سند عطا فرمائی۔ مدینہ منورہ سے85میل دور خیبر نامی بستی تھی۔ یہاں کے یہودیوں نے یہود مدینہ کے ساتھ مل کر7ہجری کو مدینہ طیبہ پر حملہ کیا۔ سرکارﷺ اس سازش کو ختم کرنے کے لئے1600صحابہ کرام کا لشکر لے کر عازم خیبر ہوئے۔ حضرت علیؓ نے یہودیوں کے قموص نامی قلعہ کو فتح کیا اور پتھر پر اسلام کو گاڑ ا۔ یہودیوں کے سرغنہ حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اس جنگ خیبر میں آپؓ نے اپنی پیٹھ مبارک پر خیبر کا دروازہ اٹھا لیا تھا اور مسلمان اس دروازے پر چڑھ کر قلعہ میں داخل ہوگئے۔ جب قلعہ فتح ہو گیا تو آپؓ نے دروازہ پھینکا۔ بعد میں جب دروازے کو گھسیٹا گیا تو اسے 80یا بعض نے40صحابہ لکھا، کہ وہ سب مل کر بھی اس دروازے کو نہ ہلا سکے۔10ہجری میں سرکار کے حکم سے آپؓ یمن کے سفیر بن کر اہل یمن کو دعوت اسلام دینے گئے جس پر کثیر تعداد نے مذہب حق قبول کیا۔ قدرت نے آپؓ کو بہت سی خصوصیات عطا فرمائیں۔ آپؓ فن کتاب کے بھی ماہر تھے، آپؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک امام رضا کے عجائب گھر میں موجود ہے، جس کی زیارت راقم کر چکا ہے۔ آپؓ مسند قضاء پر بہترین قاضی تھے۔ آپؓ کے فیصلے آج بھی دنیا کی عدالتوں میں اتھارٹی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آپؓ نے لوگوں کو قرآن کے ساتھ باقی سابقہ کتب آسمانی اور صحیفوں کا علم بھی پڑھایا۔ آپؓ نے علم قرأت، علم الاعداد، علم الفرائض، علم کلام، علم خطابت، علم معانی و بیان، علم منطق ،علم صرف ونحو ،علم لغت ،علم فقہ،علم نجوم ،علم رمل،علم جفر،علم نفسیات،علم فروض ،علم بدہیات اور علم حکومت رانی میں وہ انمول موتی سپرد انسانیت کئے کہ رہتی دنیا تک جادہ حق و صداقت پر چلنے والوں کے لئے مشعل راہ کے طور پر رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سرکار مدینہﷺ کے ظاہری وصال کے بعد حضرت علیؓ نے مسلمانوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ آپؓ نے خلفائے ثلاثہ کی دور میں ہمیشہ انہیں مفید مشورے دیئے۔ سڑکوں کی تعمیر سے لے کر جنگ کے آداب تک میں مدد فرماتے رہے ۔ مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد کسی سے انتقام لینے کے بجائے اسلام کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے۔ آپؓ نے تاجروں اور مزدوروں کی سرپرستی، کا شتکاروں سے تعاون ،قیدیوں سے اچھا برتائو،دشمنوں سے عفو درگزر ،اتحاد بین المسلمین کی کوششیں ،بیوگان ویتامیٰ کی سرپرستی اور افسروں پر کڑی نظر جیسے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ آپؓ وہ صحابی رسولﷺ ہیں، جن کے بارے میں لسان نبوتؐ نے فرمایا کہ ’’ علی! تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ ٌ کے لئے حضرت ہارونٌ تھے مگر ہارون نبیٌ تھے، تم نبی نہیں ہو‘‘۔ آپؓ سے حضورﷺ پر نور کی 186احادیث مروی ہیں اور جو احادیث آپ کی فضیلت میں وارد ہوئیں اور کسی صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئیں۔ آپؓ کی شان میں300قرآنی آیات نازل ہوئیں، چونکہ فرمان رسولﷺ ہے کہ ’’ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے، یہ دونوں مجھ سے جدا ہو کر کوثر پر مل جائیں گے‘‘۔ آپؓ کی ولایت پر قرآن خود گواہ ہے، جو دوسخا پر قرآن گواہ ہے، فضل و عطا و بخش پر قرآن گواہ ہے۔ آپؓ تمام صحابہ بالخصوص حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ سے مثالی محبت رکھتے تھے۔ آپؓ کا سب سے بڑا یہ اعزاز ہے کہ آپ کی شادی سیدہ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ سے ہوئی۔ درحقیقت جو آپؓ کی ولایت کا منکر ہے وہ نبوت کا منکر ہے، جو حب علیؓ کا منکر ہے وہ حب رسولﷺ کا منکر ہے اور جو حب رسولﷺ کا منکر ہے وہ حب خدا کا منکر ہے چنانچہ سرکارﷺ مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر ایمان لایا، میری نبوت کی تصدیق کی، میں اس کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ ولایت علیؓ کو مانے۔ جس نے علیؓ کی ولایت کو مانا اس نے میری نبوت کو مانا۔ سیدہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ جب ان کے سامنے حضرت علیؓ کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ علیؓ سے زیادہ علم سنت کے جاننے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ حضرت علیؓ میں علم کی قوت، ارادے کی پختگی، مضبوطی اور استقلال موجود تھا۔ آپؓ احکام فقہ وسنت میں ماہر تھے۔ آپؓ جسم کے فربہ تھے۔ آپظ کی عمر مبارک 62سال تھی جبکہ بعض نے63سال بعض نے64سال اور کچھ نے 65سال اوربعض نے57اور58سال بھی لکھی ہے۔17رمضان المبارک کو آپ نے بیدار ہو کر حضرت امام حسن مجتبیٰ کو فرمایا کہ’’ رات میں نے نبی پاکﷺ سے شکایت کی کہ آپﷺ کی امت نے میرے ساتھ کج روی اختیار کی‘‘ تو آقا کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’ تم اللہ سے دعا کرو‘‘ چنانچہ میں نے دعا کی کہ اے مول! مجھے ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں پہنچا‘‘۔ یہ فرمایا تھا کہ ابن نباخ موذن نے الصلوۃ الصلوۃ کہا۔ آپؓ فجر پڑھانے کے لئے گھر سے چلے، راستے میں لوگوں کو نماز کے لئے آپ جگاتے جاتے تھے کہ عبدالرحمان ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا۔ تلوار لگتے ہی آپؓ نے فرمایا کہ ’’ خدا کی قسم ! میں کامیاب ہوا‘‘۔ آپ کا زخم بہت کاری تھے۔ لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور قاتل کو پکڑ لیا۔ آپؓ نے اپنے قاتل کو شربت پلانے کا حکم فرمایا۔21رمضان المبارک 40ہجری حالتِ روزہ میں آپؓ کو کوفہ کی مسجد میں جام شہادت نصیب ہوا۔ روایت میں ہے کہ حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفر نے آپؓ کو غسل دیا، نماز جنازہ آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسنؓ نے پڑھائی۔ آپؓ نے 4سال8ماہ اور 9دن خلافت کی۔ آپؓ وہ عظیم ہستی ہیں جو پیدا ہوئے تو اللہ کے پاک گھر میں اور جب شہادت پائی تو بھی اللہ کے گھر میں یعنی آپؓ کی پاکیزہ حیات کا محور آغاز اور انجام اللہ کا گھر تھا۔ آپؓ فرمایا کرتے ’’ مجھے نبی پاکﷺ سے علم ایسے ملا جیسے پرندہ اپنے بچوں کو غذا دیتا ہے‘‘۔ آپؓ نے زندگی میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں کی۔ آپ کی مقدس تعلیمات پر چل کر ہم اپنی دنیا و آخرت سب سنوار سکتے ہیں۔ حکمران آج بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے مولائے کائنات کے مقدس اقوال و سیرت پر عمل کریں۔ اللہ اپنے کامل بندوں کے صدقے وطن عزیز پاکستان اور تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے اور ہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات آسان فرمائے۔ آیءے یوم شہادت مولائے کائنات پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کرکے سب متحد ہو جائیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ کسے را میسر نہ شد ایں سعادت بہ کعبہ ولادت، بہ مسجد شہادت۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button