ColumnQaisar Abbas

جمہوری ہدایت نامہ .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

ضمنی الیکشن کی مثال بنجر اور کلر زدہ زمین پر اُگی ہوئی فصل جیسی ہے ۔ کہیں الیکشن ہیں اور کہیں نہیں ہیں ۔ بہرحال الیکشن کا نیم جمہوری ملک میں ہمیشہ پانچواں موسم ہوتا ہے ۔ آپ اگر کسی حلقے کے عام آدمی ہیں اور بد قسمتی سے ووٹر بھی ہیں تو پھر آپ اپنے علاقے میں کسی نہ کسی کے بندے مشہور ہونگے۔آپ کا تعلق لغاری،کھوسہ، مزاری، بزدار، نون ، دستی،سید،ہراج یا ڈوگر گروپ سے ہو سکتا ہے۔آپ کسی جاگیر دار یا قبضہ گروپ کے لاڈلے ہوسکتےہیں ۔آپ کسی کے کارکن یا مزارع بھی ہوسکتے ہیں مگر آپ ان کے دوست نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ کے خون میں جو سیل ہیں وہ بھی انہیں قبول نہیں جن کے اجداد نے مسلمانوں کی مخبری کے عوض انگریزوں سے جائیدادیں لی تھیں ۔ان کی شکل و شباہت بھی دیسی ساخت کی نہیں ہے اور عادات تو پھر بھی نزاکت میں ڈھل چکی ہیں۔
آپ نے سیاسی رہنماؤں کو دوست سمجھ لیا ہے یا آپ ان کی معاملہ فہمی کو اپنے اوپر عطا سمجھ بیٹھے ہیں تو بڑی غلط فہمی کررہے ہیں۔آپ نے ان کے لیے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر جلسے منعقد کروائے ہیں، لنگر بانٹے ہیں،مقدمات جھیلے ہیں،طویل اپوزیشن کاٹی ہے پھر بھی ان کو اپنا نہ سمجھ لینا کہ وہ اپنے جیسے جاگیرداروں کے دوست ہو سکتے ہیں آپ کے نہیں۔ آپ نے اپنے لیڈر کی محبت میں اپنی برادری کی مخالفت برداشت کی ہے،موت فوت ترک کی ہے تو یہ آپ کی غلطی ہے کیونکہ ایک کام پڑنے کی دیر ہے سارا بھرم پاش پاش ہوجائے گا۔اس وقت آپ اپنی حقیقت کا پہلا عکس دیکھیں گے جب آپ کا لیڈر الیکشن جیت کر ایوان میں پہنچے گا یا وزارت کا حلف اٹھائے گا۔آپ جو تالیاں بجا بجا کر مقدر کی لکیریں تک دھندلا بیٹھے ہیں پھر ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے جب ان کے ڈیرے پر گھاس پر گھنٹوں بٹھا کر ان کا دربان کھردرے لہجے میں پوچھے گا کہ ’’تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو‘‘ تو آپ خود کو تسلی دینے کےلیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ملازم ہے آپ کو جانتا نہیں۔
آپ کے محبوب لیڈر کے خاندانی ملازم جنہیں وہ نسل در نسل تمیز اور تعلیم سے دور ہی رکھتے ہیں ، جب جی چاہے گا آپ کو ملاقات کا شرف عطا کروا دے گا ورنہ آپ دیکھ سکیں گے کہ لیڈر صاحب کہیں ضروری میٹنگ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔ اپنی برادری کی پگڑی آپ کے سر پر ہے اور آپ کی اپنی بستی میں عزت بھی ہے ، شعور کی سیڑھیاں چڑھتی جوان اولاد آپ کو منع بھی کرتی ہے کہ وڈیروں کے ڈیروں پر جانا چھوڑ دو تو پھر آپ کو اولاد کی بات مان لینی چاہیے کہ اب آپ کے لیڈر کے پلے کچھ نہیں بچا وہ آپ کو ذلیل کرکے دراصل اس ذلت کا بدلہ لے رہا ہوتا ہے جو پارٹی اجلاسوں میں سربراہان جماعت کی طرف سے ان کے حصے میں آتی ہے۔ جنہیں وزارت تو ملتی ہے مگر اختیار نہیں ملتا۔
آپ اپنے ووٹ کو کاسٹ کریں تو پھر بھرم بھی سلامت رکھیں۔سیاسی ورکر بنیں کسی سیاستدان کے در کے سگ نہ بنیں۔انہیں ایک ایم این اے سمجھیں مرشد یا پیشوا نہ سمجھیں کیونکہ یہ آپ کے باپ دادا کی مخبری کرکے جاگیر دار بنے ہیں اور انگریز کی دلالی کے آثار اب بھی ان کے حلئیے پر نمایاں ہیں۔آپ ان کی لا حاصل محبت میں اپنے جیسے دوستوں کو دشمن نہ بنائیں۔ نعرے لگانے والے بدقسمت لیڈر آپ کو صرف گنتی پوری کرنے کےلیے شمار کرتے ہیں اس سے آگے صرف بھرم کے ٹوٹنے کی بازگشت ہے۔
آپ کو نظرانداز کرکے ،آپ کی خدمات بھول کر انہیں اس وقت صدمہ ہوتا ہے جب پارٹی سربراہ دو دو دن اپنے برآمدوں میں بٹھا کر ٹکٹ کسی اور کو دیتے ہیں تو پھر انہیں اپنے مخلص کارکن یاد آتے ہیں۔ ان کا مزاج بگاڑنے میں سارا قصور تالی بازوں کا ہے جو انسان کو فرعون کی مسند پر بٹھا کر پھر خود ہی اس کا شکار ہوتے ہیں۔
یوں تو عجیب روش آن پڑی ہے کہ لوگ اب سیاست دانوں کے ڈیروں پر جانے کے بجائے اس افسر کا کوئی ٹاؤٹ تلاش کرتے ہیں جس کی میز پر ان کی فائل دھری ہوتی ہے ۔ چند ہزار نذرانہ دے کر دفتر سرکار میں بادشاہوں کی طرح داخل ہونے والا عام آدمی عزت نفس مجروح کروائے بغیر اپنا کام کروا لیتا ہے ۔ عوام کو اگر اپنے مسائل خود حل کرنے کا ہنر آگیا ہے تو پھر ووٹ بھی ذات برادری اور علاقائی تعصب کے بغیر کاسٹ کریں تاکہ ہماری جمہوریت بھی بلوغت کی طرف گامزن ہو سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button