Ahmad NaveedColumn

ہماری سیاسی تاریخ میں ایسی کو ئی درخشاں مثال .. احمد نوید

احمد نوید

 

بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی
میں بھی شریک ہوں ترے حال تباہ میں
ملک کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص جنہیں سرکاری خزانے سے پیسہ دیا جاتا ہے، کفایت شعاری مہم میں حصہ ڈالیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر اتفاق کرتے ہوئے کمیٹی سے کہا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔ مگر سو ال یہ پیدا ہو تاہے،ایسا کرے گا کون؟
اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، جرنیل، سویلین اور ملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جو سہولتیں، مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، وہ بہت زیادہ حد تک ختم ہو جائیں گی۔ ان میں سے نمایاں تجاویز یہ ہیں کہ کابینہ کا حجم کم کیا جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیے جائیں، سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے۔سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروس والوں سے تمام مراعات، سکیورٹی، معاون سٹاف اور یوٹیلیٹی واپس لی جائیں۔ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں، وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں وغیرہ کا موجودہ بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے۔
مگر سو ال یہ پیدا ہو تاہے،ایسا کرے گا کون؟
تمام سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور مسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہ دیے جائیں، اگر پہلے ہی ایک سے زیادہ پلاٹ الاٹ اور کوئی اضافی زمین الاٹ کی گئی ہے تو اسے منسوخ کرکے نیلامی کرائی جائے اور سب کے لیے سکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔کابینہ کا حجم کم کرکے اسے 30 ارکان تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔مگر سو ال یہ پیدا ہو تاہے،ایسا کرے گا کون؟
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری بند کی جائے، کسی بھی عہدے، آرگنائزیشن کے لیے مخصوص الاونس 25 فیصد کم کیا جائے، صوابدیدی گرانٹس اور خفیہ سروس فنڈ منجمد کیاجائے۔ غیر ملکی سفر، پوسٹنگ اور دوروں کے حوالے سے وزارت خزانہ اور کابینہ ڈویژن کے ساتھ مل کر نظرثانی کی جائے، جن پنشن اصلاحات پر خزانہ ڈویژن کام کر رہا ہے انہیں 30 جون 2023ء تک حتمی شکل دی جائے،ایسی تمام اسامیاں جو گزشتہ تین سال سے خالی ہیں،انہیں ختم کر دیا جائے۔
مگر سو ال یہ پیدا ہو تاہے،ایسا کرے گا کون؟
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ لگژری گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور سرکاری ملازمین بڑی گاڑیاںاستعمال نہیں کریں گے۔ ریٹائرڈ سول، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی افسران کو حاصل سہولتیں، گاڑیاں، سکیورٹی، سپورٹ سٹاف اور یوٹیلیٹی سب بند کی جائیں، کابینہ ڈویژن ایسی ایجنسیوں اور سرکاری اداروں کی نشاندہی کریں جو اوور لیپنگ فنکشن کر رہی ہیں۔
مگر سو ال یہ پیدا ہو تاہے،ایسا کرے گا کون؟
پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو ملنے والے بجلی کے فری یونٹس ختم کیے جائیں۔ سبسڈی اور گرانٹس کے حوالے سے اپنی تجاویز میںکمیٹی نے کہا ہے کہ تمام سبسڈیز با ہدف یعنی ٹارگٹڈ ہونا چاہیے اور توجہ صرف اور صرف غریب طبقے پر مرکوز رکھنا چاہیے۔بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے صرف غریب دوست سبسڈیاں برقرار رکھی جائیں اور باقی کیسز میں پوری قیمت وصول کی جائے، صوبوں کو چاہیے کہ وہ سبسڈیوں اور گرانٹس اپنے شہریوں کودیں۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف ایسے ترقیاتی پراجیکٹس کیلئے فنڈنگ دے جو آئینی حد میں آتے ہیں، 1985ء سے ترقیاتی پراجیکٹس کی نشاندہی بذریعہ ارکان پارلیمنٹ کا نظام ختم کیا جائے۔ ریاستی اداروں میں طرز حکمرانی بہتر کی جائے اور اس مقصد کے لیے قانون پر عمل کیا جائے، ایسے ریاستی اداروں کو سبسڈیاں نہ دی جائیں جو عوام کے لیے کچھ اچھا نہیں کر سکتے، قرضوں کے حصول کی درخواستوں کے حوالے سے سخت شرائط و ضوابط نافذ کی جائیں۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایسی کو ئی درخشاں مثال نہیںکہ ہم نے ایسی تجاویز پر کبھی عمل کیاہو ، لہٰذا ب ایسا کرے گا کون؟
بقول حبیب جالب صاحب
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button