ColumnNasir Naqvi

نئیں ریساں شہر لاہور دیاں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

لاہور، لاہور ہے۔ جنے لہور نئیں تکیا اور جمیاں نئیں، یہ محاورے اور باتیں محض باتیں نہیں، لاہوری صرف خوش خوراک نہیں، روایات و ثقافت اور تہذیب و تمدن کے رکھوالے بھی ہیں، اسی لیے لاہور کو منفرد مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہے کہ اس شہر میں بسنے والے داد و تحسین میں بخیل ہرگز نہیں، وعدے کے پکے اور من کے سچے ایسے کہ مشکل گھڑیاں بھی ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ لہٰذا ہر اچھے بُرے حالات میں بھی یہاں وہ کچھ ادب و ثقافت اور سیاست و صحافت میں دیکھنے کو ملتا ہے جو وطن عزیز کے دوسرے شہروں میں ممکن نہیں۔ تازہ ترین مثال سب کے سامنے ہیں کہ سیاسی اور معاشی بحران کی موجودگی اور ملک ڈیفالٹ ہونے کی خبروں، دہشت گردی کی نئی لہر آنے کے باوجود شہر لاہور کی ادبی، ثقافتی، سیاسی اور صحافتی سرگرمیا ں عروج پر ہیں۔ ان ہی خوبیوں کے باعث پاکستان آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے نہ صرف لٹریچر فیسٹول کی بین الاقوامی تقریب کے لیے لاہور کا انتخاب کیا بلکہ لاہور اور لاہوریوں کی ادبی خدمات اور اردو سے پیار پر داد و تحسین بھی پیش کی کیونکہ مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی افراتفری کے دور میں لاہور آرٹس کونسل کے روح رواں ذوالفقار علی زلفی نے اس انداز میں ساتھ نبھایا کہ احمد شاہ ساری زندگی لاہوریوں کی محبت کو بھول نہیں سکیں گے۔ تین روزہ تقریبات کے پہلے ہی روز ایک اہم اور منفرد شخصیت ادبی دنیا کا روشن ستارہ امجد اسلام امجد مصلحت خداوندی اور نظام موت و حیات میں ڈوب گیا۔ لیکن ایفائے عہد میں فیسٹیول جاری رہا اور امجد صاحب کی غیر موجودگی میں ان کی تصویر کرسی کی زینت بنی رہی، انہیں اس انداز میں یاد کیا گیا کہ وہ غیر حاضری میں بھی وہاں موجود رہے۔اسی طرح اس قسم کی محفلوں کی جان اور شان صداکار، اداکار، بین الاقوامی لیجنڈ ضیا محی الدین ناسازی طبیعت کے باعث شرکت نہ کر سکے اور تیسرے روز جب فیسٹیول میں ’’نئی شاعری اور امکانات‘‘ کے حوالے سے جائزہ لیا جارہا تھا، دنیا چھوڑ گئے۔ یاسمین حمید، فاطمہ حسن، جواز جعفری، نجیب جمال، اورنگ زیب نیازی نے بڑی سیر حاصل گفتگو کی لیکن ضیاء محی الدین کی کمی پورے فیسٹیول میں محسوس کی گئی کیونکہ عجیب سی بات تھی کہ جہاں علم و ادب کی بات چیت اور مستقبل کے تقاضوں پر گفتگو ہو، وہاں منفرد لہجے، انداز اور عالمی شہرت کا مالک ضیاء محی الدین نہ ہو؟ لیکن ’’وقت‘‘ نے اجازت نہیں دی۔ زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے اسی نے واپس لے لیا، ہم ، آپ اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا، سوائے صبر کے۔ یقیناً ضیاء محی الدین جیسی شخصیات برسوں میں بھی پیدا نہیں ہوتیں۔ قدرت نے انہیں 92سال کی زندگی دی، لیکن ان میں صلاحیتیں ایسی بھر دیں تھی کہ آج اس کی واپسی پر ہمیں ہی نہیں، ادب و ثقافت کے چاہنے والوں کو کمی اس لیے محسوس ہو رہی ہیں کہ دوسرا اس جیسا کوئی نہیں۔
بات زندہ دلوں کی زندہ دلی اور لاہوری اندازِ فکر سے شروع ہوئی لیکن امجد اسلام امجد اور ضیاء محی الدین کی شخصیات اس قدر بھاری بھرکم تھیں کہ انہیں فراموش کرنا میرے قلم کے بس میں نہ تھا، یقیناً یہ شخصیات ایسی ہیں کہ انہیں ہر لحاظ سے اکیڈمی کا درجہ حاصل ہے۔ نئی نسل کو ان سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، اس لیے ہمارے قلم کار ان کے حوالے سے ابھی بہت کچھ لکھیں گے اور اس کی ضرورت بھی ہے لیکن اس وقت میرا قلم صرف لاہور اور لاہوریوں کی بات کرنے کے موڈ میں ہے۔ بتانا مقصد یہ ہے کہ نامساعد حالات میں بھی لاہور نے اپنی زندہ دلی قائم رکھی بلکہ ادب و ثقافت کی پذیرائی کی،ذمہ داری کی ادائیگی میں بھی پورا اترا، یہ تین روزہ فیسٹیول اپنی مثال آپ تھا۔ مختلف نشستوں میں اہم شخصیات نے نہ صرف تفصیلی گفتگو کی بلکہ یہ مکالمہ برسوں یاد رکھنے والا تھا، شاعری، کتاب، سیاسی حالات، مکالمہ، ڈرامہ کونسا موضوع تھا جو یہاں زیر بحث نہیں آیا۔ موسیقی نے بھی اپنا علیحدہ رنگ جمایا، لیکن اس کی کامیابی میں جہاں احمد شاہ اور ذوالفقار زلفی کی محنت تھی وہاں الحمرا کے تاریخی اور ثقافتی ماحول نے اس میں چار چاند لگا کر یادگار بنا دیا، اس کامیابی میں زندہ دلانِ لاہور کی دلچسپی کو فراموش کرنا یقیناً ظلم ہو گا، ہر شعبۂ زندگی کے افراد نے اس میں شمولیت کی اور اسے اب تک ہونے والے لٹریچر فیسٹیول کی تقریبات میں کامیاب ترین بنا دیا، اس کوشش پر پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے روح رواں احمد شاہ خصوصی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے فیسٹیول کے لیے لاہور کا انتخاب کیا۔پھر لاہور آرٹس کونسل اور لاہوریوں نے بھرپور شرکت کر کے اسے ادبی تاریخ کا ایسا باب بنا دیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ایسا ہوتا بھی کیوں نا؟ لاہور۔ لاہور ہے ، ایک روایتی، ثقافتی اور ادب نواز شہریوں کا شہر۔ الحمرا کے دو وسیع وعریض ہال اور لان کھچا کھچ بھرا رہا۔
یہی نہیں، دوسری جانب ترقی پسندوں اور سرخ سلام کے شیدائیوں نے اپنی مدد آپ کی ایک روشن مثال بنتے ہوئے کاسمو کلب باغ جناح میں دنیائے ادب کے منفرد شاعر فیض احمد فیض کی یاد اور جدوجہد میں فیض امن میلہ سجایا۔ نامساعد مسائل اور اَن گنت مشکلات میں گھرے طارق فاروق جیسے کامریڈ نے اپنے چند ہمنوا اکٹھے کر کے ابتدء کی پھر لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔ سماجی کارکنوں، دانشوروں،مزدوروں، طالب علموں اور ترقی پسندوں کا بھرپور اجتماع تھا۔ پہلے یہ میلہ فیض فیملی سجایا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ سب انتظامات طارق فاروق کی قیادت میں عوامی تھے۔ اس میلے بھی مکالمہ بھی ہوا اور مشاعرہ بھی، سیاست کی بات بھی کی گئی اور معاشرتی و معاشی ترقی و خوشحالی کی بھی، صوفی کلام بھی سننے کو ملا اور ترنم ناز و عدیل برکی سمیت مختلف گلوکاروں کی گائیگی بھی، اگر اس فیض امن میلہ کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ فیض صاحب کے خیالات اور نظریات کی پیروی میں ایک خوبصورت تقریب تھی، اچھی اور منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہ امن میلہ محض روایتی میلہ ٹھیلہ نہیں تھا۔ یہ فیض احمد فیض کی 112ویں سالگرہ پر منعقد کیا گیا۔ لہٰذا اس کا عنوان تھا ’’امید سحر کی بات سنو‘‘ رکھا گیا۔ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے معاشی، سیاسی اور ماحولیاتی حوالوں سے اپنی اپنی بات بھی سنائی، اس میلے میں سماں باندھنے کے لیے سٹالز بھی لگائے گئے اور شرکا ء کو سستے داموں اشیائے خور و نوش کی سہولت بھی دی گئی اور اختتام میلہ ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں ملک و قوم، خطے اور دنیا کے موجودہ مسائل، انسانی حقوق اور مزدوروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ خطے کے معاملات کے مثبت حل کے لیے ’’سارک‘‘ کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔ تحریک طالبان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاستی تحفظ فراہم کیا جائے۔ بلوچستان کا مسئلہ بھی افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں اور قومیتوں کو جمہوری شراکت داری دے کر قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست، مذہب، تعلیم و دینیات کو علیحدہ کر کے اقلیتوں کو مساوی حقوق کے حالات کار بنائیں جائیں۔ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے فوج اور عدلیہ کا کردار تمام جماعتوں کی مشاورت سے طے کر کے میثاق جمہوریت کی تشکیل نو کی جائے۔ مزدور کی کم از کم اجرت پچاس ہزار کرکے طبقاتی، معاشی، انسانی اور سماجی حقوق کی بحالی کے حقیقی انتظامات کئے جائیں جن میں طلباء و مزدور یونین کی بحالی اور معذور و ضعیف لوگوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو، ان مطالبات پر موجودہ حالات میں عمل درآمد ناممکن ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کسی نے معاملات کی نشاندہی تو کی، فیض امن میلے کے نام پر مبنی ’’امید سحر‘‘ کے کھولتے ہوئے راستے کی تلاش کا نعرہ تو لگایا گیا ورنہ ایسی گفتگو اور ایسے نعرے جنرل ضیا ء الحق کی آمریت کے بعد کم کم ہی سنائی دیتے ہیں اس لیے کہ ماضی کی یونینز کلچر کو آمرانہ حکم سے ایسے دریا برد کیا گیا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی پہلی تقریر میں بحالی کی خوشخبری سنا کر مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی بھول گئے لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے طلباء اور مزدور یونینز کا کلچر بحال نہیں کیا تو پھر کوئی دوسرا بھی نہیں کرے گا؟
بات یہاں ختم نہیںہوئی، لاہور آرٹس کونسل نے بھی اپنے روایتی انداز میں ’’چلو پھر سے مسکرائیں‘‘ کے موضوع سے تین روزہ فیض فیسٹیول 2023کا اہتمام کیا جس میں ملک بھر کے علاوہ بھارتی دانشوروں، شاعروں اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔ فیض کا کلام بھی پڑھا گیا۔ قوالی نائٹ بھی ہوئی۔ حبیب ولی محمد نے بھی رنگ جمایا۔ مکالمہ، رقص بھی دیکھنے کو ملا اور شعرو شاعری کے ساتھ مختلف حوالوں سے گفتگو بھی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تین روزہ تقریبات کو اگر ان کی اہمیت کے حوالے سے پرکھا اور لکھا جائے تو ہر نشست کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنا خاصا مشکل ہے۔ لہٰذا میری ’’جمع تفریق‘‘ میں اتنا ہی کافی ہے۔ خوشی کی بات صرف اتنی ہے کہ مشکل حالات اور اَنگنت مسائل کی موجودگی، معاشی و سیاسی بحران میں لاہور اور لاہوری کسی بھی طرح مایوس نہیں۔ ان کی سیاسی، معاشی جدوجہد بھی جاری ہے اور ادبی ، ثقافتی سرگرمیاں بھی، اس لیے یہ کہنا بجا ہے ’’نئیں ریساں شہر لہور دیاں‘‘ اور ’’لاہور۔۔لاہور ہے‘‘۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button