Editorial

مہنگائی، عوام کدھر جائے؟

 

وفاقی حکومت نے ایک سو ستر ارب روپے کا منی بجٹ پیش کیا اور چند ہی گھنٹوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 22روپے جبکہ گیس کی قیمتوں میں 113فیصد تک اضافہ کرکے آئی ایم ایف کا ایک اور مطالبہ پورا کردیا ہے مگر بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق آئی ایم ایف کے پیکیج سے پاکستان کی معیشت بحال ہونے کا امکان نہیں اور معیشت کی حقیقی بحالی کے لیے مانیٹری پالیسی مزیدسخت کرنا ہوگی۔موڈیز نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح 33 فیصد تک جاسکتی ہے ۔پاکستانی معیشت کو مسلسل، حقیقی طور پر مضبوط اور مستقل انتظامیہ کی ضرورت ہے مگر خوارک کی قیمت بڑھنے سے پاکستان کو ادائیگیاں کرنا پڑیں گی جس سے غربت مزید بڑھے گی۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدت مہنگی ہو رہی ہیں، توانائی کی قیمت میں اضافے سے بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنا ہو گا۔ایک ہی روز میں ایک سو ستر ارب روپے کا منی بجٹ، پٹرولیم اورگیس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہارکیا جارہا ہے، اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے حالیہ اقدامات کو انتہائی ناگزیر قرار دیتے ہوئے، غربت، بے روزگاری اور معاشی مسائل میں الجھی عوام سے اظہار ِ ہمدردی کیا ہے لیکن کیا اِس سے عوام مطمئن ہوں گے اوراپنے آپ کو مزید قربانی کے لیے پیش کردیں گے، ایسا سوچنا قطعی مناسب نہیں کیونکہ حکومت اور اِس کی اتحادی جماعتیں جہاں ملکی معیشت میں بہتری لانے کی دعوے دار تھیں وہیں مہنگائی اور غربت میں کمی کی سب سے بڑی داعی تھیں مگر نو ماہ میں ہی پے درپے ایسے اقدامات کیے گئے جن کے نتیجے میں عوام میں اِن کی مقبولیت شدید متاثر ہوئی ہے اور حکمران خود کہتے ہیں کہ اِن اقدامات کی وہ سیاسی قیمت ادا کریں گے اوربلاشبہ ہم روزِ اول سے یہی خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں مگر ایک طرف حکمران مہنگائی اور مشکل فیصلوں کا اعتراف کرتے رہے ہیں تو دوسری طرف پہلے سے زیادہ سخت اور مشکل فیصلے تسلسل کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور یقیناً منی بجٹ ، بجلی اور گیس کی قیمت میں حالیہ اضافہ اِن سخت فیصلوں میں سرفہرست شمار کیے جاسکتے ہیں اگرچہ چند روز قبل اسحق ڈار نے منی بجٹ لانے کا عندیہ دیا تھا لیکن ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ منی بجٹ سے عام پاکستانی متاثر نہیں ہوگا مگر منی بجٹ کی سامنے آنے والی تفصیلات کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر عوام کی مشکیں کس دی گئی ہیں اور عوام اب مزاحمت بھی نہیں کرسکتے، بلاشبہ حکمرانوں کے پاس واحد راستہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہی باقی رہ گیا ہے یا پھر ہم قدرتی آفات کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ہم اِس کی بنیاد پر دوست ممالک اور عالمی برادری سے ریلیف طلب کرسکیں اور جب کوئی چارہ نہیں ہوتا تو حالات بگڑنے پر ہم آئی ایم ایف سے رجوع کرلیتے ہیں اور جب ادارہ قرض کو بنیادی اصلاحات سے مشروط کرتا ہے توحکمران اور معاشی ٹیم سارا بوجھ عوام پر منتقل کرکے سابقین کو مورود الزام ٹھہراکر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ قومی خزانے خالی ہونے ، غیرملکی قرض چڑھنے سمیت تمام مسائل کی ذمہ دار عوام کیوں ہے، کیا عوام نے ڈیم بنانے کی بجائے مہنگی بجلی بنانے کا مطالبہ کیا تھا، کیا پٹرولیم اور گیس مصنوعات کا متبادل لانا عوام کی ذمہ داری تھی، بلاشبہ پاکستان کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے پہنچی ہے تو اِس میں عوام کا کوئی قصور نہیں بلکہ ذمہ دار وہ ہیں جن کے ویژن میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی نہیں تھی بلکہ اُنہوں نے عارضی اور نمائشی کاموں کے ذریعے مسائل کو عارضی طور پر ٹالا ۔ ہماری معاشی حکمت عملی کوئی نہیں، معاشی ماہرین کی چیخ و پکار پر کان دھرنے کو کوئی تیار نہیں، نئی حکومت نئی معاشی ٹیم، نئی چیلنجز، نئے الزامات، نئے حالات اور نتیجہ عوام کی کسمپرسی کی صورت میں برآمد ہورہا ہے۔ عامۃ الناس اور اشرافیہ کے درمیان ماسوائے قبر کے، ہر شے کا فرق ہے، اشرافیہ کا معیار زندگی عوام سے یکسر مختلف، مسائل مختلف، ترجیحات مختلف، سوچنے کا معیار مختلف مگر عوام کو ہانکنے کا طریقہ کار ایک ہی، یعنی روٹی، کپڑا اور مکان۔تعجب ہےکہ حکمران عوام کی مشکلات کا ادراک نہیں کررہے اور مزید سے مزید بوجھ لاد رہے ہیں جو بلاشبہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج نہیں تو کل اقتدار کے ایوانوں میں ملک و قوم کے لیے سوچنا ناگزیر ہوجائے گا کیونکہ اب عوام پر مزید بوجھ لادنا قطعی ممکن نہیں رہا لہٰذا اب ماضی سے مختلف فیصلے کرنا ہوں گے، مہنگائی کا طوفان آچکا ہے، دعوے کے برعکس مہنگائی قابو اور کم کرنے کی بجائے مہنگائی بے قابو اور زیادہ کرنا قطعی اصلاحات نہیں ہیں، ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی بجائے بڑھانے کی روش ظاہر کرتی ہے کہ ابھی غلطیوں سے پوری طرح سبق نہیں سیکھا گیااور اب بھی یہی تصور کیا جارہا ہے کہ عوام باتوں اور وعدوں سے مطمئن ہوکر خاموش ہوجائیں گے۔ سفید پوش طبقہ بری طرح پِس چکا ہے، اب مزید بھار برداشت نہیں کرسکتا مگر ان کے لیے کوئی انکم سپورٹ پروگرام نہیں اور مہنگائی پہ مہنگائی کی جارہی ہے، ماضی کے بعض سقوط ظاہر کرتے ہیں کہ حکمرانوں نے آواز ِ خلق نہیں سنی تھی لہٰذا وہ غلطیاں اب ’’سقوط‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button