ColumnNasir Naqvi

کون پوچھے گا؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ملکی معاشی اور سیاسی حالات میں ابھی تک بہتری کی گنجائش پیدا نہیں ہو سکی، نہ ہی کوئی تسلی دینے کو تیار ہے۔ڈالر بہادر آسمان سے باتیں کر رہے ہیںاور سابق ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف کے ’’ارسطو‘‘ اسحاق ڈار بھی دعوئوں سے آگے نہیں بڑھ سکے لیکن اپنے کام پورے کر لیے اور ناکامی پر شرمندہ بھی نہیں۔ حالات اس طرح بے قابو ہو چکے ہیں کہ مریم نواز شریف پوری ذمہ داری سے بتا رہی ہیں کہ عوام کو ریلیف دینا بھی چاہیں تو نہیں دے سکتے۔ ترقی پذیر ممالک کو ڈالرز کی چمک دکھا کر غلامی کا طوق مقدر بنانے والے عالمی ادارے آئی ایم ایف کے وفد نے بھی اپنی اہمیت حالات کی نزاکت پر دیدہ دلیری سے دکھائی اور من مرضی کی شرائط حکومت سے منوا لیں۔ لہٰذا مہنگائی کا ایک نیا طوفان ہم سب کے دروازوں پر کھڑا ہے۔ ضروریات زندگی ہر روز قوت خرید سے باہر نکلتی جا رہی ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی نئی قیمتیں بھی غریب اور متوسط طبقے کو جیتے جی مارنے کیلئے کمر کس چکی ہیں اور تو اور ادویات کے نرخوں میں بھی تین سو فیصد اضافے کی سمری بھی بن چکی ہے۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں حقیقتاً جینا تو مشکل تھا ہی اب مرنا بھی آسان نہیں۔ قبروں کی کھدائی بنوائی ہی نہیں، کفن اور گورکن کی فیس میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بحرانوں کا سامنا کرنے کیلئے فعال قائدین اور رہنما عوامی سطح پر رہنمائی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں رہنما حکومتی ہوں کہ اپوزیشن کے، تمام کو اپنی سیاست بچانے اور مستقبل کے اقتدار کی فکر لاحق ہے جبکہ قوم سہمی بیٹھی کسی مسیحا کے انتظار میں ہے کہ شاید مالک کائنات کوئی سبب بنا دے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور لیڈران سیاست سیاست کھیل رہے ہیں حالانکہ دشمن تالیاں بجا کر اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کا تمسخر اڑا کر توجہ دلائو نوٹس بھی دے رہے ہیں کہ سنبھل سکتے ہو تو سنبھل جائو، ورنہ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں، عجیب بے حسی کا عالم ہے ایسے میں بھی افراتفری کے سوا کچھ نہیں نظر آ رہا۔ پوشیدہ دشمن جس کو قوم نے مالی اور جانی بھاری نقصان اٹھا کر اپنی بہادر فورسز کے زور سے مار بھگایا تھا ، اب پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اللہ اللہ کر کے حکومتی آنکھ کھلی تو انہوں نے اے پی سی بلا کر معاشی اور دہشت گردی کے مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کا فیصلہ کیا تو پی ٹی آئی اور عمران خان نے انکار کر دیا، پھر بیک ڈور کوششوں سے اپوزیشن کسی حد تک رضامند ہوئی، مقررہ تاریخ بھی تبدیل کی گئی لیکن پھر وزیراعظم شہباز شریف برادر ملک ترکیہ میں زلزلہ تباہی پر تعزیتی دورہ پر جانے کی ٹھان لی۔ یہ الگ بات ہے کہ دورہ بھی ملتوی ہو گیا اور اے پی سی بھی ۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں اے پی سی ناگزیر حالات میں اجتماعی رائے عامہ کیلئے بلائی جاتی ہے تاکہ بحرانی کیفیت کا خاتمہ کیا جا سکے پھر بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دونوں جانب سے کیا جا رہا ہے۔ ایسا مظاہرہ جس کا جواز نہیں، سابق وزیراعظم عمران خان بضد ہیں کہ تمام مسائل اور بحرانوں کا ایک ہی حل نئے انتخابات ہیں جبکہ حکومت اور اتحادی جماعتیں دعویدار ہیں کہ بنا اصلاحات انتخابات بے کار ہوں گے۔ عمران خان بھی اپنی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں قبل از انتخاب مردم شماری کا فیصلہ اپنے اقتدار میں دے چکے ہیں تاہم ان سے کون پوچھے گا؟ کہ اگر آپ یوٹرن لینا چھوڑ دیں تو مل بیٹھ کر آدھے سے زیادہ مسائل کا مشترکہ حل تلاش کیا جا سکتا تھا؟
حکومت نے معاشی بحران کے خاتمے کیلئے مختلف فارمولے بنائے اور سخت ترین فیصلے کر کے عوام پر بوجھ بڑھا دیا گیاحالانکہ وعدہ یہ تھا کہ بوجھ اشرافیہ پر ڈالا جائے گا۔ حالات بُرے سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں لیکن معاملات کی نزاکت کو کوئی سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت عمرانی دور کے الزامات پر بیان بازی کرتے ہوئے وقت گزارنے میں مصروف ہے۔ پچھلے دور کا ایکشن ری پلے بھی چل رہا ہے۔ پکڑ، دھکڑ اور جکڑ کا عملی مظاہرہ بھی کیا جا رہا ہے اور عمران خان ردعمل میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کر بیٹھے ہیں جس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ یہ اجتماعی مفاد میں مشاورت سے دوا اور دعا کا وقت ہے۔ ہم نے حکومتی یقین دہانیوں پر آئی ایم ایف کے قرضے کو تریاق سمجھ لیا تھا۔ اسی لیے آئی ایم ایف کے وفد کی آمد پر ہماری خوشیاں قابل دید تھیں جبکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں مشکل گھڑی میں سہولیت دینے نہیں آیا بلکہ کڑی شرائط پر قرضہ دے کر ہمارا مستقبل بھی گروی رکھنے کی کوشش میں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ قرضہ گلے کی ہڈی سے مختلف ہرگز نہیں۔ حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف وقتی ریلیف کیلئے بھی من مرضی کی شرائط لاگو کرنا چاہتا ہے۔ ذرا غور کریں ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں کمی، خسارے کے قومی ادارے پی آئی اے، سٹیل ملز اور دیگر کی نجکاری، بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، سرکاری افسران کے اثاثوں کی چھان بین، بینک اکائونٹس، فیملیز کے گوشوارے اور ذرائع آمدن کی جانچ پڑتال کے ساتھ ڈیفنس بجٹ میں چھ سو ارب کی کمی، بھلا سوچیں، حکومت اتنی مضبوط کب ہے کہ یہ شرائط تسلیم کرے یا پھر انکار کر دے جبکہ آئی ایم ایف کی پوزیشن، کسی عالمی بدمعاش سے ہرگز کم نہیں، اس وقت تو اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہی بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی صورتحال اس غریب مقروض شخص سے مختلف ہرگز نہیں، جس کے دروازے پر سود خور صبح شام دکھائی دیتا ہے اور وہ اس سے جان چھڑانے اور لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کیلئے مزید سودی رقم لے کر جان بچاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ سود خور کے جال میں اور زیادہ پھنس جاتا ہے ہماری صورتحال بھی ایسی ہی ہو چکی ہے۔
مملکت خداداد پاکستان کو مالک کائنات نے محل وقوع کے ساتھ ساتھ اَن گنت نعمتوں اور باصلاحیت لوگوں سے نوازا، لیکن ہمارے صاحب اقتدار لوگوں نے ہر دور میں اجتماعی مفادات کے فیصلے کرنے کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے قومی اثاثے نہیں بڑھائے صرف اپنے معاملات بہتر کئے۔ ایسے فیصلے کئے گئے جن سے آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم نہیں ہو سکی، بار بار آئین پامال کر کے من مرضی کا رواج ڈالا کیا، جائز کاموں کو نظر انداز اور حق دار کو حق سے محروم کیا گیا، لہٰذا جذبہ قومیت کو ٹھیس پہنچائی گئی، ملک غلط فیصلوں اور کوتاہیوں کا شکار ہو کر دشمنوں کی سازش سے دولخت ہو گیا۔ اس سازش میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟ بین الاقوامی طاقتوں اور ازلی دشمن بھارت کے ساتھ اپنی صفوں کی کون کون سی کالی بھیڑوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں لیکن پھر بھی ہم نے نہ کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی ہمارے رہنمائوں نے اپنے روئیے بدلے، الزامات اور دعوئوں کی سیاست کا دور دورہ ہمیشہ رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔ پہلے سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ذمہ داروں کی مدد سے نواز شریف اور آصف زرداری کو چور، ڈاکو اور لٹیرا قرار دلوایا۔پھر اپنے بنائے صادق اور امین عمران خان کو تخت اقتدار سے نیچے کھینچ کر خوار کرا دیا۔ایسے میں مسیحا کیسے ملے گا؟ 75سالہ روایتی سیاست جاری ہے ۔ کسی نے دنیا اور حالات سے کچھ نہیں سیکھا، ایسے میں صرف افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ احتساب کے نام پر صرف شور مچایا گیااس لیے کسی پرکچھ ثابت نہیں کیا جا سکا، اب عمران خان اور ان کے حواری ایکشن ری پلے کی زد میں ہیں۔ مقدمات اور عدالتوں کا سامنا ہے ،جو پکڑے گئے وہ ضمانت کرا کے میدان میں موجود ہیں جو ابھی پکڑے نہیں گئے ان کی باری آنے والی ہے، چونکہ آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم نہیں ہو سکی اس لیے اس سیاسی حمام میں سب ننگے ہیں اس لیے یہ سوچنا بے کار ہے کہ مملکت اور اس میں بسنے والوں کے حوالے سے بھی کبھی اچھی خبر ملے گی۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون پوچھے گا؟ لیکن امید پر دنیا بھی قائم ہے اور پاکستان بھی انشاء اللہ قائم رہے گا کیونکہ چند لٹیروں کے سوا اس دھرتی ماں سے پیار کرنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن لمحۂ فکریہ ہے قرضہ پاکستان کے نام پر لیا جاتا ہے۔ موج میلہ سیاستدان اور ریٹائرڈ فوجی افسران کرتے ہیں اور ادائیگی عوام کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button