Editorial

سیاست دانوں کی تضاد بیانی !

 

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان راست گوئی کی وجہ سے ہمیشہ شہ سرخیوں اور تنقید کی زد میں رہتے ہیں اب ایک بار پھر وہ راست گوئی کرکے تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ عمران خان نے قوم سے خطاب اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا تھا کہ جو چیزیں سامنے آرہی ہیں اس سے واضح ہوا کہ مجھے نکالنے میں امریکہ کا ہاتھ نہیں تھا اور شہباز شریف جنرل باجوہ کے فیورٹ تھے اور انہیں وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ بہرکیف عمران خان کا نیا بیانیہ اُن کے ماضی کے بیانات کی واضح تردید ہے خصوصاً اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے سے لے کراُن کے اقتدار سے باہر ہونے، امریکی سائفر، اعلیٰ سطحی تقررو تبادلوں پر اختلافات، دورہ روس سمیت کم و بیش تمام دعوئوں کی تردید اِس بیانیہ میں موجود ہے،جو ابھی سامنے آیا ہے۔ عمران خان کئی ماہ سے امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح کے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں اور حال ہی میں بھی انہوں نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے سامنےاعتراف کیا ہے کہ امریکہ سپر پاوراور ہمارا بڑا تجارتی پارٹنر ہے، پس پہلے امریکہ کے خلاف پہلے عامۃ الناس کی ذہن سازی کرنا اور پھر رفتہ رفتہ اُن دعوئوں سے پیچھے ہٹنا بلاشبہ تعجب انگیز ہے، خصوصاً اُن افراد کے لیے جنہوں نے اُس بیانیہ کو پوری طرح سے خود پر مسلط کردیا تھا اور اب وہ بیانیہ غیر موثر ہوگیا ہے ، اگرچہ اب اُس سازش کا رُخ امریکہ کی بجائے اب وزیراعظم شہبازشریف اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب موڑ دیاگیا ہے مگر امریکہ مخالف بیانیہ جس نہج تک لے جایا گیا وہ سبھی کے مدنظر رہنا چاہیے، امریکی حکام خصوصاً وائٹ ہائوس کو بھی اِس بیانیہ کی ایک سے زائد بار نفی کرنا پڑی، امریکی حکام نے بارہا واضح کیا کہ امریکہ نے ایسا کچھ نہیں کیا مگر اِس کے باوجود وہ بیانیہ اگر دنیا بھر میں نہیں تو کم ازکم ملک کے اندر تو بخوبی پروان چڑھایا
گیا اور شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اِس سے پاک امریکہ تعلقات پر اثر تو پڑا ہوگا جنہیں ازسرنوبحال کرنے کے لیے طویل وقت اور قربانیاں درکار ہوں گی مگر سیاسی قیادت کو ایسے حساس معاملات میں انتہائی احتیاط اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ ریاستوں کے درمیان تعلقات دہائیوں کی محنت اور قربانیوں کا صلہ ہوتے ہیں مگر ذرا سی غلطی انہیں متاثر کردیتی ہے اور تعلقا ت نہ صرف بہت پیچھے چلے جاتے ہیں بلکہ رویے بھی سرد ہوجاتے ہیں جن کا نتیجہ نئی آزمائشوںاور چیلنجز کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، عمران خان کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی گئی ، اتحادی حکومت کی تشکیل سے ابتک کئی ایسی واقعات اور امور دیکھے گئے جنہیں عوام میں اب تک سراہا نہیں گیا مگر اب تو چیئرمین تحریک انصاف نے واضح کردیا ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے محرکات کون تھے۔ عمران خان کے نئے بیانیہ کو راست گوئی ہی اسی لیے ہم نے قراردیا ہے کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتیں یہی موقف ظاہرکررہی تھیں کہ عمران خان کو انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا تھا اور اب خود بھی عمران خان امریکہ سے متعلق اپنے بیانیہ سے دستبردار ہوگئے ہیں لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کوجوش خطابت میں اپنے اور ملک و قوم کے تشخص کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ لمحوں کی غلطی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، اول تو ہمارے ملک میں سیاست کو اچھا ہی سمجھانہیں جاتا اور اِس کے لیے دلائل دیئے جاتے ہیں کہ سیاست دان راست گو نہیں ہوتے اور ہمیشہ ملک و قوم کی بجائے اپنا فائدہ مدنظر رکھتے ہیں پھر اُن کی کرپشن کے قصے اور کہانیاں عام لوگوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی بنیادی وجہ بنتی ہے، پس سیاسی قیادت کو ہمہ وقت مدنظر رہنا چاہیے کہ اُن کے پیروکاروں کے لیے وہ راہنمااور ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں لہٰذا اُن کا ہر عمل اور کہاوت کبھی محدود نہیں رہتے اور نہ اُس کے منفی اور مثبت اثرات، پس ہمہ وقت کوشش کی جانی چاہیے کہ جوش خطاب میں تضاد بیانی سے گریز کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button