ColumnNasir Naqvi

اور۔۔۔۔۔وہ بھی، چلا گیا .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

اردو ادب کا ایک اور بڑا نام دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ منفرد شاعری، خوبصورت ڈرامے ، غزل اور نظم سب کچھ یادگار، لیکن اب وہ ہم میں نہیں۔ اُس کی باتیں، تحریریں اور مکالمے ہمیں ہمیشہ یاد دلائیں گے کہ وہ بندہ کمال تھا، پاکستان ٹی وی کی تاریخ میں اس سے بڑا مقبول ڈرامہ کسی دوسرے کا اعزاز نہ بن سکا، حالانکہ اس شعبے میں ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک تھے اور اب بھی ہیں۔ پھر بھی اُس جیسا دوسرا نہیں، کیونکہ ڈرامہ سیریل ’’وارث‘‘ اس کی ایسی وراثت تھی جس نے پاکستان نہیں، سرحد پار بھارت میں بھی دھوم مچائی ۔ شعر و ادب میں اس قدر بڑا نام کہ دنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھا’’ امجد اسلام امجد‘‘۔
لاہور میں پیدا ہوا۔ لاہور میں پڑھا، لکھا، پھولا، پھلا، پھر اس کی خوشبو سے ادبی دنیا معطر ہو گئی۔ یہ نگینۂ ادب فانی دنیا میں 4اگست 1944 کو آیا اور اَن گنت کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد 10فروری 2023 کو خالق حقیقی کی طرف لوٹ گیا۔ زندگی کی سانسیں دل کی دھڑکن بند ہونے سے ٹوٹیں لیکن اس نے تو بہت پہلے یہ کہہ دیا تھا:
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میں زمانۂ طالب علمی میں برسوں پہلے اپنی مادر علمی دیال سنگھ کالج کی ایک ادبی محفل میں پہلی مرتبہ امجد صاحب سے ملا تھا۔ یہ محفل ہمارے اُستاد محترم گلزار وفا چودھری سجایا کرتے تھے، اس روز ان کے ساتھ عطاء الحق قاسمی بھی تھے۔ یقین جانیے میں نے برسوں انہیں ایک ساتھ دیکھا۔ دونوں شاعر، نثر نگار، کالم نویس اور ڈرامہ نگار اور دونوں منفرد انداز کے مالک خوش کلامی اور خوش لباسی میں بھی کسی سے کم نہیں اور کسی بھی محفل میں اگر قہقہوں کی آواز سنائی دے تو سمجھ لیں اس ادبی محفل میں امجد اور عطا کی جوڑی موجود ہے۔ دونوں لطیفہ گوئی اور فقرے پر فقرہ ہی نہیں، بات سے بات کو آگے بڑھانے کا فن جانتے تھے۔پیشے کے اعتبار سے اُستاد اور وہ بھی ایم اے او کالج لاہور میں۔ جب موبائل کم بخت نے یہ خبر دی تو فوراً عطاء الحق قاسمی یاد آ گئے جنہوں نے اللہ کے فضل سے ابھی چند روز پہلے اپنی 80ویں سالگرہ بچوں کے
اصرار پر گھریلو اور دوستانہ ماحول میں منائی ہے۔ مالک صحت و تندرستی دے انہیں، ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے لیکن دکھ ہوا کہ جوڑی ٹوٹ گئی،نظامِ قدرت میں زندگی کی آخری منزل موت ہی ہے جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ امجد صاحب رخصت ہوئے، انہوں نے ماشاء اللہ بھرپور اور خوبصورت زندگی گزاری۔ اس وقت جب وہ ہم سے روٹھ گئے اس وقت بھی زندہ دلوں کے شہر لاہور کی تمام بڑی شاہراہوں پر ان کی خوبصورت تصاویر آویزاں ہیں۔یہ اعزاز انہیں ’’پاکستان لٹریچر فیسٹول‘‘ نے دیا جس کے میزبان احمد شاہ اور لاہور آرٹس کونسل ہیں۔ اس فیسٹول میں امجد اسلام امجد نے بھی مقالہ پڑھنا تھا لیکن موت نے مہلت نہ دی۔ شام کو اس خوبصورت اور یادگار فیسٹول کا افتتاح تھا اور وہ صبح سویرے دنیا چھوڑ گئے۔ لہٰذا اس محفل میں عطاء الحق قاسمی اکیلے ہی دیکھے گئے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ انہیں اکیلے کب دیکھا، تو ذہن کے ساتھ دل بولا کہ ’’جب جب دونوں اپنے اپنے دولت کدہ پر ملے ورنہ ہمیشہ اکٹھے ہی ملے‘‘۔
پھر ایک وقت آیا کہ سرکاری ملازمتوں میں ایم اے او کالج سے نکلے۔امجد صاحب چلڈرن کمپلیکس، اردو سائنس بورڈ میں چیئرمین، لاہور آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنرز رہے تو عطا الحق قاسمی ناروے میں پاکستان کے سفیر، لاہور آرٹس کونسل اور پی ٹی وی کے چیئرمین بنے۔ امجد صاحب نے وارث کے بعد پی ٹی وی کے دہلیز، سمندر اور رات جیسی ڈرامہ سیریلز لکھے۔ عطاء الحق قاسمی نے خواجہ اینڈ سن، شب دیگ، اپنے پرائے اور شیڈا ٹلی جیسے کامیاب ترین ڈرامے لکھے۔ دونوں کو عہد ساز ممتاز شاعر احمد ندیم قاسمی کی قربت میں بہت کچھ تربیت میں ملا، اور دنیائے ادب کے ان شہسواروں نے پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر سے بہت سے اعزازات بٹورے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دنیا کے جس جس شہر، گائوں اور کونے میں اردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی اپنی اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور دونوں کا ہی بڑا احترام و مقام ہے۔ یہ بات بھی کئی سال پہلے کی ہے کہ میں لاہور ایئرپورٹ پر متحدہ عرب امارات جانے کیلئے پہنچا تو سامنے لائونج میں جوڑی کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی والہانہ انداز میں خوش آمدید کہتے ہوئے بولے ’’کدھر کی تیاری ہے؟‘‘۔ میں نے کہا ’’متحدہ عرب امارات UAE‘‘۔بولے ’’کیا کرنے؟‘‘۔ میں بولا ’’آپ کی پیروی میں مشاعرہ پڑھنے۔‘‘کہنے لگے ’’اور کون کون ہے؟‘‘۔ میں نے جواب میں اطہر شاہ خاں، عنایت علی خاں، طہٰ خان، خالد مسعود، سرفراز شاہد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ابھی نام پورے بھی نہیں ہو پائے تھے ۔بولے ’’ مشاعرہ تے نئیں سرکس کرن جا رہئے او‘‘ _اے شاعر تے نئیں‘‘۔ میں نے کہا ’’جناب انور مسعود اور ضیاء الحق
قاسمی بھی ہیں‘‘۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور باری باری بولے ’’انور مسعود صاحب تو سکہ بند شاعر ہیں۔‘‘عطاء الحق قاسمی کہنے لگے ’’بھائی جان کی کیا بات ہے۔‘‘میں نے دریافت کیا ’’جناب !جوڑی کس پرواز پر ہے؟‘‘ بولے ’’یورپ‘‘ مشاعرے میں۔تھوڑی دیر گپ شپ ہوئی، موضوع مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری ہی رہا۔ اسی دوران ہماری پرواز کی انائونسمنٹ ہو گئی اور ہم بصد احترام اجازت لے کر چل دئیے۔ یقیناً تعلقات برادرانہ تھے اس لیے تواتر کے ساتھ ملتے جلتے، لیکن ان دنوں کچھ عرصے سے امجد صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی جبکہ عطاء الحق قاسمی صاحب سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ موجود ہے لیکن اب تو جوڑی ٹوٹ گئی، مصلحت خداوند کے سامنے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جانِ جہان اس کی دی ہوئی ہے بلکہ اس کی امانت ہے۔ اس لیے شکوہ کی گنجائش بھی نہیں، لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے پھر ناصر کاظمی کا یہ شعر تسلی دیتا ہے ؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
امجد اسلام امجد نے زبان و کلام سے محبتیں بانٹیں بلکہ یہ پیغام بھی عام کیا کہ جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلائو ہے۔ انہوںنے مجھے بھی خاص محبت سے نوازا، زبردستی کے صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب بنا، احتساب کا چرچا رہا، لوٹ مار اور کرپشن کے معاملات پر ایک خصوصی ڈرامہ سیریز ’’کانٹے‘‘ بنائی گئی۔ اس کی کہانیاں مختلف کیسز کے حوالے سے تھیں۔ ایک کہانی جو ملتان کے میئر صلاح الدین کے حوالے سے تھی وہ ڈائریکٹ اور پروڈیوس کرنے کیلئے میرے حصّے میں آئی، اس کے مصنف امجد اسلام امجد تھے، سکرپٹ پڑھا تو کچھ تبدیلیاں ضروری سمجھیں، چار اقساط پر مبنی اس سیریل کا نام ’’دامن میں چنگاری‘‘ تھا۔ پہلے تو امجد صاحب نے انکار کر دیا۔ پھر ایک دو نشستوں کے بعد میں انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔پھر انہوں نے مجھے کہا ’’تم بھائی ہو، تمہیں اجازت ہے جو دل چاہے مناسب انداز میں بدل لو اور میں نے اسے ایسے بدلا کہ اقساط چار کی بجائے پانچ ہو گئیں۔ جب ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہوا تو انہوں نے مجھے داد بھی دی۔ میں بہت خوش ہوا کیونکہ کہاں امجد اسلام امجد اور کہاں میں؟ بڑے فراخدل تھے ورنہ کب کوئی بڑا رائٹر اپنا ایک لفظ بھی بدلنے دیتا ہے۔ موت بھی ’’دامن میں چنگاری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سب کے دامن میں زندگی کے ساتھ ساتھ رہتی ہے لیکن حقیقی مالک جان و جہان کے بغیر آگ نہیں بنتی۔‘‘
ایک اطلاع ہے کہ رات سوئے اور صبح نہیں اُٹھے۔ دل نے بے وفائی کی لیکن خبر یہ ملی ہے کہ شوگر کی کمی نے جاگنے کی مہلت نہیں دی، اچانک امجد اسلام امجد کا چلے جانا، ایسا ہی لگا جیسے ان کی نظم ہے:
ستاروں سے بھرے اس آسمان کی وسعتوں میں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
فلک پر کہکشاں درکہکشاں اک بے کرانی ہے
نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے
بس اتنا یاد ہے مجھ کو، ازل کی صبح جب سارے ستارے
الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پر نکلے تھے
تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا
اسی تارے کی صورت کا، مری بھیگی ہوئی آنکھوں
میں بھی ایک خواب رہتا ہے
میں اپنے آنسوئوں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں
اور اس کی راہ تکتا ہوں
سنا ہے گمشدہ چیزیں
جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں
وہیں سے مل بھی جاتی ہیں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
بس یہی سمجھئے، امجد اسلام امجد اپنا ستارا ڈھونڈتے دوسری دنیا میں چلے گئے، اللہ تعالیٰ ان کی منزلیں آسان کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button