Editorial

سیاسی بے یقینی کے بڑھتے سائے

 

وزیراعظم محمد شہبازشریف کی زیر صدارت مسلم لیگ نون کے اہم اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد صوبے میں نوے روز میں انتخابات کرانے کا عندیہ دیاگیا ہے۔ لیگی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ہم الیکشن سےگھبراتے نہیں، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔حکومتی بڑوں نے پنجاب میں آئین کے مطابق چلنے پر اور آئینی و قانونی مشاورت کے تحت حکمت عملی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نےپنجاب کی سیاسی صورتحال پر قائد نون لیگ نواز شریف اورسابق صدرآصف زرداری سےٹیلی فون پر مشاورت کی ہے۔ آصف علی زرداری بھی لاہور پہنچ گئے ہیں اور وہ وزیراعظم شہبازشریف سمیت چودھری شجاعت حسین سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی سمری پر وہی ہو گا جو آئین و قانون کہتا ہے، ہم الیکشن سے گھبرانے والے نہیں، آخر میں جو عمران خان کے ساتھ ہونا ہے پھر پتا لگے گا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ سیاسی صورتحال پر غور و فکر ہوا ہے، اسمبلیاں کو وقت سے پہلے توڑنا غیر جمہوری اور غیر آئینی کام ہے۔پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز اسمبلیاں توڑا کرتے تھے اور اب سیاسی آمر سوچ رکھنے والا توڑ رہا ہے۔ ہم نے اسمبلی بچانے کی اپنی بھرپور کوشش کی، اگر انتخابات ہوتے ہیں تو ہم اس کے لیے پہلے سے ہی تیار ہیں، ہم الیکشن لڑیں گے اور اس میں کامیاب بھی ہوں گے، بعض معاملات آئینی و قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر مناسب بھی ہوتے ہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے بھی دونوں وفاقی وزرا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون ہر حوالے سے
متحرک ہے، ہم الیکشن میں جانے کو بالکل تیار ہیں، آنے والے دنوں میں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کریں گے۔پہلے گورنر صاحب اپنا فیصلہ کر لیں تو اس کے بعد نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ آئے گا، گورنر صاحب کو اسمبلی تحلیل کرنے پر جلد دستخط کر دینے چاہیے۔ہمارا سارا فوکس اب اگلی حکمت عملی پر ہے پس معاملہ صرف پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور صوبے میں انتخابات کا ہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونوا بھی اپنی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری ارسال کرنے کو تیار تھے۔ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت مہاجر قومی موومنٹ جو قبل ازیں پی ٹی آئی کی مرکز میں اتحادی تھی، اب نئے اتحادیوں سے بھی ناراض ہوکر سیاسی بھونچال کو بڑھانے کے لیے پر تول رہی ہے، پھر یہ خبر بھی گرم ہے کہ کسی بھی وقت وزیراعظم شہبازشریف کو قومی اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہاجاسکتا ہے، لہٰذا جو تشویش چند روز پہلے تک سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے چہرے پر نظر آرہی تھی وہی اب اتحادی جماعتوں کی بڑی قیادت کے نظر آرہی ہے کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل ہونے کی صورت میں اتحادی حکومت پر دبائو بڑھے گا اور اگر دونوں صوبوں میں انتخابات کرادیئے جاتے ہیں تو یقیناً اِس کے نتائج حیران کن طور پر کسی ایک کے پلڑے میں جائیں گے مگر تبصروں اور تجزیوں سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے وہ کسی لحاظ سےبھی اتحادی حکومت کے حق میں نظر نہیں آتا کیونکہ وفاق میں حکومت بچانے کے لیے پہلے ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرکے انہیں منانا پڑے گا تاکہ صدر مملکت اگر وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہیں تو وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے سکیں اور عین ممکن ہے کہ درپردہ کوئی غیر یقینی صورتحال منظر عام پر آجائے جو اتحادی حکومت کے لیے قطعی قابل قبول نہ ہو۔ دوسری اہم بات :کیا اتحادی حکومت دونوں صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں جانے سے گریزاں تو نہیں پھر کیا ان صوبوں کے انتخابات کے نتائج بعد میںوفاق، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوں گے؟ لہٰذا سینہ جتنا بھی چوڑا کرلیاجائے سانس پھولا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے کیونکہ اتحادی حکومت ابھی تک عوام کو موجودہ معاشی بحران خصوصاً تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی پر مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، اگرچہ اب بھی ایسا ہی سوچا جارہا ہے کہ رابطہ عوام مہم میں عوام کو بتایا جائے گا کہ اتحادی حکومت کے لیے عمران خان نے عالمی سطح پر کیا کیا مسائل پیدا کیے جن کا براہ راست نقصان ملک و قوم کو ہوا مگر ہمہ وقت مدنظر رہنا چاہیے کہ اِتحاد میں شامل مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تین تین بار اقتدار میں آچکی ہیں اور ہمیشہ اگلے انتخابات میں انہیں پیچھے کرکے دوسری پارٹی کو عوام نے اقتدار کے لیے منتخب کیا ہے پھر پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران پی ڈی ایم نے معیشت کی بحالی، مہنگائی کے خاتمے اور روزگار عام کرنے کا نعرہ حصول اقتدار تک مسلسل لگایا مگر نتیجے میں آج معاشی حالات اُن دعوئوں کے قطعی برعکس ہیں اور عوام میں شدید اضطراب موجود ہے کیونکہ ایک طرف انہیں مشکلات سے نکلنے کا کوئی راہ سجائی نہیں دے رہا تو دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی ایسے اقدامات نظر نہیں آرہے جو فی الوقت ڈھارس باندھنے کے کام آسکیں، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کو ماضی میں کبھی اتنے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی رابطہ عوام مہم کے سلسلے میں خدشات لاحق ہوئے، مگر ایک حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام صرف اندرون ملک ہی نہیں دیکھا جارہا بلکہ دوست ممالک اورمالیاتی ادارے بھی اِس غیر یقینی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے گومگوں کا شکار ہیں ، لہٰذا ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ بے یقینی اور اِس سایوں سے بھی جان چھڑالی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button