ColumnKashif Bashir Khan

اینٹی و پرو عمران خان سیاست۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ انہونی ہو گئی ہے جس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ترین کام تھا، بالخصوص جب بیمار معیشت اور بدترین دہشت گردی کے شکار پاکستان کا وفاقی وزیر داخلہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پنجاب اسمبلی میں گزشتہ چند دنوں سے بیٹھااراکین پنجاب اسمبلی کی خریدو فروخت میں مصروف تھا۔پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین صدر اور عدلیہ کی خریدوفروخت میں مبینہ طور پر ملوث(1997)رفیق تارڑ کے پوتے عطا تارڑ جنہیں پی ٹی آئی کے رہنما بچہ جمہورا کہتے ہیں، کے بیانات سے تو ایسا لگتا تھا کہ شاید تحریک انصاف کے درجنوں اراکین پنجاب اسمبلی عمران خان سے بیوفائی کر کے نون لیگ کے غائب امیدوار برائے وزارت اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی جھولی میں گرچکے ہیں لیکن داد دینی پڑے گی عمران خان، فواد چودھری، اسد عمر اور چودھری پرویز الٰہی کو کہ انہوں نے ناممکن کو ممکن کردکھاتے ہوئے خاموشی سے اعتماد کا ووٹ لے کر رانا ثناءاللہ اور مرکزی حکومت کے عزاہم کو ملیا میٹ کر دیا۔
میری معلومات کے مطابق فواد چودھری گورنر کے اعتماد حاصل کرنے کے غیر جمہوری حکم نامے کے بعد مسلسل جو بیانات دے رہے تھے کہ پرویز الٰہی کی پنجاب حکومت آسانی سے اعتماد کا ووٹ لے لے گی، کے پیچھے ان کی شب و روز کی محنت شامل تھی اور کروڑوں کی سیاسی رشوت اور دباؤ کے باوجود اراکین پنجاب اسمبلی کو متحد اور جوڑے رکھنے میں جہاں عمران خان کی بے مثال مقبولیت اور عوامی پزیرائی شامل تھی وہاں فواد چودھری نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس تمام سیاسی جوڑ توڑ کو خفیہ رکھنے کا کریڈٹ بھی فواد چودھری کو ہی جاتا ہے۔پنجاب اسمبلی میں اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود پہلے تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اور گورنر جیسے آئینی عہدے کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئےاستعمال کرنے کے بعد جو ذلت اور رسوائی اتحادی وفاقی حکومت اور بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ کے حصے میں آئی ہے اس نے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی منظر کشی کر دی ہے۔جمہوریت کا نام لے کر پچھلے 40 سال سے عوام کا استحصال کرنے والوں کا بیان کہ پنجاب حکومت لے کر ہی اسلام آباد جاؤں گا،نے ان کی اصل حقیقت عوام کو دکھا دی۔گویا پنجاب حکومت نہ ہوئی کوئی بازار میں پڑی شے ہوئی کہ آپ وفاق سے کسی بھی صوبے پر حملہ آورہو کر عوام کی منشا کے خلاف وہاں کی حکومت پر قبضہ کر لیں۔
بطور صحافی مجھے خوشی ہے کہ جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور بعد میں ہونے والے قریباً تمام ضمنی انتخابات سمیت اعتماد کے ووٹ لینے کے دوران پاکستان میں عوام کے ووٹ سے اپنے مفادات کیلئےبے وفائی کرنے والے تمام ہی سیاستدانوں کو عوام نے نہ صرف مسترد کردیا بلکہ ان کی سیاست کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان غالباً واحد حکمران ہیں جن کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کو عوام کی ایسی پزیرائی ملی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔گزشتہ منگل کو جب میں نے منحرف ایم پی اے مومنہ وحید کو اپنے پروگرام میں لائن پر لینے کیلئے کال کی تو اس نے لائن پر آنے کا وعدہ کرلیا اور جب پروگرام شروع ہوا تو لائن پر آنے کے بعد فون کال منقطع کر کے پھر لائن پر نہیں آئی،یہ وہ دباؤ ہے جو اپنے مفادات کیلئے ایمان اور سیاسی وفاداریاں بیچنے والےاراکین اسمبلی پر عمران خان کی سیاست سے پڑا ہے اور عمران خان کی جارحانہ سیاست نےمفادپرست سیاستدانوں کو نہ صرف ننگا کیا بے اور مستقبل میں ان کو عوام کے غیض وغضب کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔مومنہ وحید کے بارے میں فواد چودھری نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ انہوں نے پانچ کروڑ میں اپنی وفاداری تبدیل کی ہے۔تحریک انصاف کو بھی مستقبل میں مخصوص نشستوں پر خواتین کو ارکان اسمبلی بناتے ہوئے نہایت احتیاط کرنا ہو گی کہ پنجاب میں ماضی میں کچھ ایسا ہی کردار عظمیٰ کاردار بھی ادا کرچکی ہیں۔
پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری پر اس کالم کے شائع ہونے تک گورنر صاحب کے دستخط ہو چکے ہوں گے اور اس کے بعد عمران خان کےخیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑنے کے اعلان پراب کسی کو بھی شک نہیں ہوناچاہیے۔ویسے بھی جو کچھ وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کو منسوخ کروانے کیلئے کیا اور اب سندھ حکومت کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات منسوخ کروانے کیلئے تادم تحریر کر رہی ہے اس سے یہ واضح ہو چکا کہ اتحادی تمام ہی سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ ان کا ہر انتخاب میں انجام عبرتناک ہونے والا ہے۔جس طرح سے ماضی میں کراچی کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کرنے والی جماعت کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا کیا گیا اور اکٹھے ہوتے ہی ان رہنماؤں نے جو زبان استعمال کی وہ کراچی میں پھر کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام چالیس سال کی خون ریزی اور آگ کے دریاؤں کو عبور کرتے کرتے تھک چکے اور ایسے کسی اتحاد کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔دوسری جانب پاکستان کی سیاست میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور خیبر پختونخوا کی ممکنہ تحلیل کے بعد اتحادی جماعتوں اور بالخصوص
نون لیگ کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے کی گزشتہ نو ماہ کی بدترین حکومتی کارکردگی اور عوام کو مہنگائی کے جہنم میں جھونکنے کے بعد یہ سیاسی جماعتیں عوام میں جانے کے قابل ہی نہیں رہیں اور ہر ضمنی انتخاب میں ہار اور پھر بلدیاتی سمیت قومی انتخابات سے بھاگنے کی پالیسی نے عوام کی نظر میں ان اتحادی جماعتوں کو ٹکہ ٹوکری کر دیا ہے۔دوسری جانب نواز شریف وطن واپسی سے بوجہ گریزاں ہیں اور شہباز شریف تو ویسے ہی عوام کیلئے اس وقت نا پسندیدہ سیاسی رہنما بن چکے ہیں۔ واقفان حال موجودہ سیاسی صورتحال پر نوز شریف کے غم و غصہ کا بھی پتہ دے رہے ہیں کہ نواز شریف گزشتہ سال اپریل میں قومی انتخابات کروانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کی خواہش اور زرداری کی چال نے آج نو لیگ کو واقعی بند گلی میں پہنچا کر رائے ونڈ کی جماعت بنا دیا ہے۔
عمران خان نے چند روز قبل ایک ملاقات میں مجھے بتایا تھا کہ جب میں دونوں اسمبلیاں توڑ دونگا اور اس کے بعد ہم قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے استعفے منظور کرالیں گےتوپھر ان رجیم چینج کے آلہ کارتحادیوں کو بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔آج جو سیاسی صورتحال عمران خان کے سیاسی فیصلوں نے پاکستان میں پیدا کی ہے یہ بالکل ویسی ہی ہے جیسا انہوں نے مجھ سے زمان پارک میں 18 دسمبر کو کہا تھا۔اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو وزیر اعظم سمیت تمام وفاقی وزراء وغیرہ آئین پاکستان اور الیکشن ضابطے کے تحت انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔دوسری طرف اگر صرف خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے الیکشن کروا دیئے جاتے ہیں تو نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف بہت بڑے مارجن سے یہ الیکشن جیت جائے گی اور پھر عمران خان کے پاس بہت وقت ہو گا کہ وہ سندھ میں اپنی انتخابی مہم چلا کر پی پی پی کی سیاست کو تباہ کرسکیں۔ویسے بھی اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں بن گئیں تو پھر مرکز کے انتخابات جب بھی ہوتے ہیں تحریک انصاف کی جیت کو روکنا ناممکن ہو گا۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ہمیشہ سے غالب ایک بڑے عنصر کے اثرات کم ہوتے نظر آ رہیے ہیں یعنی اب’’سرفراز‘‘نہیں ہو گا۔امید تو یہ ہی نظر آرہی ہے کہ اگلے انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ نہیں مارا جاے گا۔یہ صورتحال نون لیگ کیلئے بہت پریشان کن ثابت ہوتی نظر آرہی ہے کہ 1981 سے لیکر اب تک ان کی سیاست ’سرفراز‘‘کی مرہون منت رہی ہے۔ویسے بھی عوامی بیداری کی بے مثال لہر کے بعد جس طریقے سے گزشتہ اپریل میں پاکستان میں رجیم چینج پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکا اس کیلئے عمران خان کے بعد پاکستان کے عوام کاکردار قابل رشک اور تعریف ہے۔بطور صحافی میرا وجدان کہتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق اور نیب قوانین میں اپنے مفاد کیلئے کی جانے والی ترامیم کے خلاف بھی سپریم کورٹ سے فیصلہ آ سکتا کہ یہ قوانین اول تو ادھوری اسمبلی سے منظور کروائی گئی تھیں دوسرا یہ ترامیم جمہوریت، قانون اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مریم نواز اور نواز شریف کی ملک واپسی ناممکن ہوگی بلکہ پاکستان سے بہت سارے’’نیک‘‘سیاستدان ملک سے باہر بھاگ سکتے ہیں۔ماضی میں 70 اور 80کی دہائی میں پاکستان میںاینٹی و پرو بھٹو سیاست تھی آج اینٹی و پرو عمران خان سیاست چل رہی ہےلیکن آج کی سیاست میں عمران خان بطورسیاستدان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں اور تمام تر مخالفت اور ہتھکنڈوں کے باوجود ان کی عوام میں پزیرائی ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اب دیکھیں اتحادی جماعتوں کا آنے والے دنوں کی سیاست میں مستقبل کیا ہوتا ہے کہ نو ماہ کی بدترین حکمرانی،اپنے کرپشن کیس ختم کروانےاور عوام کش پالیسیوں کے باعث وہ مستقبل میں اقتدار کے حق دار تو نہیں ہیں۔عمران خان کے تازہ سیاسی مہلک وار سے بچنااتحادی جماعتوں کیلئے ناممکن دکھائی دے رہا ہے اور لگتا ہے کہ جلد ہی عام انتخابات کروانا ہی پڑیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button