Editorial

توانائی بچت پلان کافی الفور اطلاق

 

پنجاب، خیبرپختونخوا حکومت، ایم کیو ایم ، تاجروں اور شادی ہالز ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت کے رات ساڑھے 8 بجے مارکیٹیں اور 10بجے شادی ہالز بند کرنے کے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے بیروزگاری بڑھے گی۔ انہوں نے وفاق کی جانب سے مشاورت نہ کرنے کا بھی شکوہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے رات ساڑھے 8 بجے دکانیں بند کرنے کے فیصلے کومسترد کردیادوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بھی ایسے ہی موقف کا اظہار کیاگیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے پاکستان بھر میں توانائی بچت پلان کے نفاذ کی فی الفور منظوری دی تھی ، اِس اعلان کے تحت ملک بھر میں تمام شادی ہالزرات دس بجے ، ہوٹلز اورمارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے بند ہو جائیں گی اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے دونوںصوبوںکے اعتراضات پر کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو توانائی بچت پلان کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیاتھا۔ یوں ایک طرف دونوں صوبائی حکومتوں نے وفاق کےاِس فیصلے کو مسترد کیا ہے تو دوسری طرف تاجر بھی اِس فیصلے کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں مگر اِس دوران اُن چھوٹے دکانداروں کا موقف بھی جاننے کی ضرورت ہے جن کا چھوٹا سا کاروبار صرف چند گھنٹے کے لیے ہی ہوتا ہے اور اب انہیں عین اسی وقت دکانیں بند کرنا پڑ رہی ہیں جب ان کی کمائی کا وقت ہوتا ہے۔ بہرکیف توانائی کی بچت ہونی چاہیے ،مگر ہر سطح پر ہونی چاہیے اور اس لائحہ عمل پر ہر سطح پر بلاتمیز و لحاظ عمل ہونا چاہیے، مگراس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات اور کاروبار کی نوعیت کو مدنظر رکھنا ضروری تھا۔ بلاشبہ ترقی یافتہ اقوام ضابطے کے مطابق چلتی ہیں وہاں کاروبار کے اوقات کار بھی متعین ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کبھی تصور ہی نہیں رہاکیونکہ ہم ہمیشہ سے شاہانہ طرز کے عادی رہے ہیں، کفایت شعاری صرف مخصوص طبقوں کے معاملات میں دیکھنے کو ملتی ہے وگرنہ اصراف کی مثالیں حکمرانوں سے شروع ہوتی ہیں اور اشرافیہ پر ختم ہوتی ہیں۔ کفایت شعاری مہم کے تحت ایک دو بلب جلانے والے کا کاروبار تو بند کرادیاگیا مگر عمارتوں پر چراغاں اور بڑے بڑے ہورڈنگز فیصلہ سازوں کی بصیرت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہم جس معاشی صورتحال سے دوچار ہیں ہمیں اپنی چادر کے مطابق پھیر پھیلانے چاہئیں مگر ضروری نہیں کہ صرف بتیاں بجھاکر ہی ہم معاشی مسئلے سے باہر نکل سکتے ہیں، کیا دوسرے ذرائع سے ہونے والا نقصان ارباب اختیار کو اپنی جانب متوجہ نہیں کررہا؟ غیر ملکی دورے، بڑے وفود، بڑے بڑے پروٹوکول، سرکاری عمارتوں پر چراغاں، افسران کے بڑے بڑے مالیاتی پیکیجز کے معاملے پر بھی تو غور ہونا چاہیے تھا۔ چند ماہ قبل اتحادی حکومت نے لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی لگادی اور بعض پر ٹیکسز میں اضافہ کردیا لیکن قریباً ایک ماہ بعد ہی اس پابندی کو ہٹالیاگیا جو حیران کن فیصلہ تھا، ایک طرف عوام سے قربانیاں مانگی جارہی ہیں اور نت نئی آزمائش میں مبتلا کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ کی ضروریات کا مکمل طور پر خیال رکھا جارہا ہے، غیر معمولی حالات ہیں تو اس میں سبھی سے قربانی لی جانی چاہیے، ایک طرف ہم ڈالر نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگا غیر ملکی سامان ڈالر دے کر خرید رہے ہیں، نجانے یہ کیا پالیسی ہے جس صرف اور صرف اُن اکثریتی پاکستانیوں پر ہی نافذ ہوتی ہے جو پہلے ہی معاشی لحاظ سے دفن ہونے کے قریب ہیں۔ ماضی میں ڈیم بنائے گئے ہوتے تو آج وطن عزیز میں لوڈ شیڈنگ ہوتی اور نہ ہی گھریلو اور صنعتی صارفین کو مہنگی بجلی ملتی، صنعتوں کا پہیہ دن رات چلتا اور ہم بھی چین اور ملائیشیا کی طرح دنیا بھر میں برآمدات کے حوالے سے جانے جاتے مگر ڈیم بنانے کی بجائے فی الفور بجلی کے کارخانے لگاکر آنے والے انتخابات کے لیے نعرے تیار کرلیے گئے ، آج جب ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں تو ہم بیرون ملک سے پٹرول خریدنے سے بھی قاصر ہیں، یہی وجہ ہے کہ کفایت شعاری نے حکمرانوں کو متوجہ کیا ہے لیکن کیا سرکاری افسران ، وزرا اور سیاسی شخصیات کو پٹرول کی مد میں بچت نہیں کرنی چاہیے ؟ غرضیکہ ہر معاملے کو لے لیں اشارہ ماضی کی کوتاہ اندیشی ظاہر کرتا ہے، عوام بے قصور ہوکر بھی قصور وار ہیں، ہم بچت مہم کے حق میں ہیں، بلاشبہ سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہونا چاہیے تاکہ توانائی کی بچت ہو لیکن وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار جو رات کو چند گھنٹوں کے لیے ہوتے ہیں ان کا بھی کچھ سوچنا چاہیے، اصراف پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے، بچت کرنے کے لیے ہزاروں تجاویز ہیں مگر سبھی اشرافیہ سے متعلقہ ہیں کیونکہ عام غریب آدمی تو بلاضرورت پنکھا چلانے اور چولہا جلانے سے بھی ڈرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو ایک طرف تو تمام صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ یہ فیصلہ مکمل طور پر سبھی کے لیے قابل قبول ہو اس کے ساتھ ہی چھوٹے بالخصوص شام کے وقت ہونے والے کاروبار کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، کاروباری اور شاپنگ کے لیے مارکیٹوں کے اوقات کار مقرر کیے جاسکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو دوسرے شعبوں پر بھی دھیان دینا چاہیے، لگژری اشیا کی درآمدات پر اس وقت تک پابندی عائد ہونی چاہیے جب تک ہم معیشت کے حوالے سے سکھ کا سانس نہ لے لیں۔ غیر ملکی دوروں پر پابندی یا وفد میں شامل افراد کی تعداد میں کمی کی جائے، پرتعیش ہوٹلوں میں قیام اور مہنگی گاڑیوں پر پابندی عائد کی جائے، پرائیویٹ جیٹ کی بجائے عام مسافروں کی طرح سفر کیاجائے، بڑی گاڑیوں کی جگہ چھوٹی گاڑیاں سڑکوں پر لائی جائیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو عام کیا جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں، ارباب اختیارات اپنی مراعات پر توجہ فرمائیں تو بھی ہمارے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں، لہٰذا صرف توانائی کے شعبے میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں ہمیں بچت کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے بخوبی مشاورت کے بعد اس کو لاگو کرنا چاہیے، مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ فیصلہ سازی کے دوران بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی لہٰذا عوام اس فوری فیصلے کو فوراً ہی مسترد کردیتے ہیں۔ ماضی میں گرمیوں کے موسم میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کرنے کا تجربہ کیاگیا اور بلاشبہ اس کے بہترین نتائج آئے کیونکہ یورپی ممالک میں ایسا ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے مگر صرف اِس ایک مشق سے سب کچھ ٹھیک ہونے والا نہیں بلکہ اس کے لیے خلوص نیت کے ساتھ ہر شعبے میں قابل عمل اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جبھی ہم ان بحرانوں سے باہر نکل سکیں گے، وگرنہ ماضی کی طرح یہ مشق بھی لاحاصل رہے گی مگر اس کا نقصان عوام اور چھوٹے چھوٹے روزگار والوں کو ہوگا ۔ حکومت کو چاہیے کہ پہلے مستقل بنیادوں پر سرکاری اور نجی شعبے کے نئے اوقات کار کا تعین اور اعلان کرے مگر اس کے لیے ان شعبوں سے مشاورت لازم ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتیں بھی وفاق کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوں تو ہی کامیابی ممکن ہے کیونکہ ہر صوبے اور ہر علاقے کی اپنی اپنی ضرورت ہے، پھر انڈسٹری کے مسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ بہرکیف کفایت شعاری مہم کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے۔ غیر ضروری درآمدات اور مراعات پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے جب تک حکمران خود اچھی مثال قائم نہیں کریں گے، عامۃ الناس کسی معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button