Editorial

پنجاب کے بعد سندھ میں سیاسی ہلچل

 

وفاق میں حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت سے نکلنے کی دھمکی دے کر سندھ کی سیاست میں ارتعاش پیداکردیا ہے۔ ایم کیو ایم پہلے پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد میں شامل تھی مگر تحریک عدم اعتماد سے قبل اتحاد سے الگ ہوکر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ بن گئی تھی مگر اب ان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ15 جنوری کے بلدیاتی الیکشن سے پہلے حلقہ بندیاں درست کی جائیں ورنہ فیصلہ کریں گے کہ انتخابات حکومت میں رہ کر لڑنا ہے یا باہر رہ کر۔ وزیراعظم ایک دو دن میں بتادیں جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہوں گے یانہیں، بتائيں ہمارے وعدوں کا کیا بنا، اسی معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کرکے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی درخواست کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں رہنمائوں میں پنجاب کی سیاسی صورتحال اور و زیر اعلیٰ پنجاب کے اعتماد کے ووٹ سے متعلق بھی بات چیت ہوئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما بھی اِس معاملے پر ایم کیو ایم کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اتحادی جماعت کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیراعظم شہبازشریف سے بات کی جاسکی، اسی تسلسل میں آج بلاول ہاؤس میں اہم اجلاس ہو گاجس میں دونوں جماعتوںکی سنیئر قیادت شرکت کرکے مسائل کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ پندرہ جنوری سے قبل کراچی اور حیدرآبادکی از سرنو حلقہ بندیاں کی جائیں، حلقہ بندیاں درست نہ ہوئیں تو سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔اِدھر پنجاب میں ابھی تک سیاسی عدم استحکام بدستور موجود ہے اور سبھی گیارہ جنوری کو لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی کے منتظر ہیں جس میں پنجاب حکومت کے معاملے پر واضح احکامات سامنے آسکتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف نے سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان اور ڈپٹی سپیکر واثق قیوم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ہے ، قبل ازیں حزب اختلاف نے
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماداِس موقف کے ساتھ واپس لے لی تھی کہ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہا ہے لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف اب تحریک عدم اعتماد کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی طرح سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب نے بھی اسمبلی کا اجلاس مقررہ تاریخ سے دو روز قبل طلب کرلیا ہے لہٰذا ایک ہی دن میں تحریک عدم اعتماد کی قراردادوں کو واپس لینا اور قبل از وقت اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا پنجاب میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نکلنے کا عندیہ ظاہر کرتا ہے۔ قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں بیک وقت تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے وفاق میں حکمران اتحاد پر دبائو بڑھایا جاسکے لیکن اسی دوران پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع ہوگئی اور گورنر پنجاب نے دوسری طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا خط لکھ دیا اس کے بعد مقررہ وقت میں اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کو معزول کردیا لیکن لاہور ہائیکورٹ نے رجوع کرنے پروزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کو بحال کردیا ، ساتھ ہی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی تحریری یقین دہانی بھی لے لی۔ حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اعتماد سے ووٹ لینے کے لیے تیاریاں کررہے ہیں اور اسی دوران سپیکر اور ڈپٹی سپیکرکے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے لی گئی ہے لہٰذا پنجاب میں سیاسی صورتحال اگرکچھ ٹھیک ہوتی نظر آرہی ہے تو سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے مطالبات نہ مانے جانے پر وفاقی حکومت سے باہر نکلنے کی دھمکی دے دی ہے۔ یہی نہیں عام انتخابات جوں جوںقریب آتے دکھائی دے رہےہیں، سیاسی جماعتیں اپنے لیے نئی صف بندیاں کررہی ہیں تاکہ انتخابی مہم کے لیے تیاریاں شروع کرسکیں، متذکرہ صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک تہائی اکثریت کے لیے ہمیشہ بڑی جماعتوں کو چھوٹی جماعتوں کی ضرورت درپیش رہتی ہے اور اسی لیے بڑی جماعتوں کو انہیں بہرصورت ساتھ رکھنے کے لیے ہر وعدے کی پاس داری کرنا پڑتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ایم کیو ایم کی حمایت کی ضرورت تھی تو سابق وزیراعظم عمران خان خود چل کر کراچی پہنچے تھے، اور ایک بار پھر بڑی جماعتیں ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یوں ابھی پنجاب میں سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہوا تو سندھ میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ پس یہ سیاسی ہلچل ان حالات میں ہورہی ہے جب معیشت سنگین ترین خطرات سے دوچار ہے، ماہرین معیشت، پریشانی ظاہر کررہے ہیں کہ دنیا عالمی کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں معاشی بحران مزید سنگین تر ہوتا جائے گا، اس لیے اُس مشکل وقت کے ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ابھی سے حکمت عملی طے کرلینی چاہیے کیونکہ عالمی سطح پر بھی حالات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہر ریاست دیرپا نقصان سے بچنے کے لیے مسائل اور وسائل کو سمیٹ رہی ہے تاکہ مشکل وقت کا آسانی کے ساتھ سامنا کیا جاسکے ، روس یوکرین جنگ اور دیگر عوامل نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہےاور پس پردہ قوتیں بھی عالمی سطح پر معاشی ہیجان برپا کرنے کے لیے سرگرم ہیں مگر افسوس کہ ہمارے ہاں سیاسی دائو پیچ کے ساتھ سبھی کی توجہ سیاست کی جانب مرکوز ہے اور فارغ وقت میں کبھی کبھار معیشت کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے میثاق معیشت کی اہمیت پر زور دیاجاتا ہے لیکن اس کے بعد پھر وہی سیاست اور پھر وہی جوڑ توڑ۔ رواں سال کو عام انتخابات کا سال قرار دیاجارہا ہے،پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے روز نئی صورتحال سامنے آرہی ہے، چند مہینوں کے بعد عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوسکتی ہیں پس سیاسی ہیجان کو فی الحال ایک طرف رکھ کر معیشت اور دہشت گردی جیسے سنگین اور فوری توجہ طلب مسائل پر سبھی کی نظر مرکوزہونی چاہیے کیونکہ ملک وقوم کو ان ہی چیلنجز کی وجہ سے شدید پریشانی لاحق ہے مگر سیاسی عدم استحکام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ایک کے بعد ایک سیاسی مسئلہ سامنے آرہا ہے اور اسی وجہ سے حقیقی مسائل نظر انداز ہوکر بحرانوں کی صورت اختیار کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button