ColumnNasir Naqvi

ڈار اور ڈالر .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

بڑا شور تھا کہ ڈار آ رہا ہے اور جلد ڈالرکی اکڑ ٹوٹجائے گی۔ پھر سب نے دیکھاکہ اسحاق ڈار آئے، سینیٹ کا حلف بھی اٹھایا اور مفتاح اسماعیل کی چھٹی ہو گئی اور اسحاق ڈار نے وزارتِ خزانہ پر قبضہ کر لیا۔ ڈالر بہادر تھوڑی دیر گھبرائے اور پھر واپس اپنی پوزیشن میں آ بیٹھے، یہاں تک کہ اسحاق دار سے وابستہ امیدوں پر پانی پھر گیا، عمران خان کی اکثریت کو اقلیت بنا کر اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت بھی اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود مہنگائی کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ اب عوام پوچھتی ہے کہ اگر یہی تماشا ہونا تھا تو پھر سلیکٹڈ حکومت کو ہی پانچ سال چلنے دیتے تاکہ ریاست مدینہ کا خواب ادھورا نہ رہتا اور نہ ہی عمران خان اس طرح مظلوم نظر آنے لگے ہیں بلکہ جس انداز میں حکمرانوں کے مقدمات تنکوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے ہیں اس سے بھی عجیب سی بے چینی پائی جا رہی ہے کہ عمران حکومت نے جلد بازی میں محض انتقامی کارروائی میں بے سروپا مقدمے بنائے تھے کہ اتحادی اس قدر پاور میں ہیں کہ ان کے سامنے مضبوط اور حقیقی کیسز بھی ٹھہر نہیں پا رہے۔ سابق وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ امپورٹڈ حکومت کو سازش کے تحت لایا ہی اس لیے گیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں جانے سے پہلے ان کا داغدار دامن صاف کر لیا جائے اور تمام مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دے دیا جائے۔ خانِ اعظم یہ بھی کہتے ہیں کہ احتساب اس لیے نہیں ہو سکا کہ جنرل (ر) باجوہ کے نزدیک سیاستدانوں کی کرپشن بے معنی تھی۔ وہ ہمیں مہنگائی کی کمی اور عوامی ریلیف کا مشورہ تو دیتے تھے لیکن کرپٹ، چور اور ڈاکوئوں کو پکڑنے نہیں دیا۔ حقیقت یہی ہے کہ معاشی تباہی کا ذمہ دار بھی وہی ایک شخص ہے۔ اس کی سرپرستی میں دو چور خاندانوں نے اداروں کو ٹھیک ہونے نہیں دیا۔ ایف آئی اے کو تباہ اور نیب ترامیم کے بعد وہاں اپنا بندہ نامزد کرکے سارے کیسز ختم کرانے کی جدوجہد شروع کر دی۔ مسلم لیگی ارسطو اسحاق ڈار اپنی مفروری ختم کر کے ڈالر کے پَر کاٹنے آئے تو
عام لوگوں نے امید باندھ لی تھی کہ ڈالر کی اڑان پر قابو پا لیا جائے گا۔ ہم کہتے تھے ایسا نہیں ہو گا۔ آج ثابت ہو گیا کہ ڈالر کے سامنے حکومت بے بس ہے لیکن اسحاق ڈار کے کیسز ختم اور اثاثے واپس دئیے جا رہے ہیں۔ اب صرف ڈالر مضبوط نہیں ہو رہا ، ڈار بھی تگڑا ہو گیا ہے حکومتی دعوے خاک میں مل گئے
کوئی غیر ملکی سرمایہ دار حکومت پر بھروسہ نہیں کر رہا، نہ ہی اپنے سرمایہ کار ، سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں۔ پھر بھی ’’ڈار اور ڈالر‘‘ موجیں مار رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس زرمبادلہ اتنا نہیں کہ ڈالر کی اکڑ توڑی جا سکے، المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں جنہیں ڈالر عزیز ہے انہوں نے اسے ’’محبوبہ‘‘ اور کسی کارآمد دوائی کی طرح پہنچ سے دور رکھا ہوا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ درآمدی کارگو کی کلیئرنس رک گئی۔ صنعتی شعبے میں خام مال کی مشکلات اور کمی سے انڈسٹری ہچکیاں لینے پر مجبور ہو گئی اور کئی تو جان سے گئیں۔ معاشی بحران میں بے روزگاری کا اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ سرمایہ دار اور صنعت کار اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ اگر آج یہ حالات ہیں تو کل کیا ہو گا؟
ڈالر بہادر پوری پاکستانی قوم کے ساتھ حکومت کو بھی منہ چڑا رہے ہیں کہ کہاں ہے ڈار، ہمارے پائوں میں زنجیر اور ہماری پرواز پر بے پَر کی اُڑانے والے سرکاری ارسطو؟ نئے سال میں پاکستان نے ایک ارب ڈالر سے زائد قرضہ بھی واپس کرنا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے یوں یہ صورت حال ملکی جی ڈی پی گروتھ کو بھی لے بیٹھے گی لیکن وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا قوم کو حوصلہ دے رہی ہیں کہ ڈی فالٹ کے خدشات نہیں، غیر سنجیدہ لوگو ں کی خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوں گی، چھٹیو ں کے باوجود
آئی ایم ایف سے رابطے میں ہیں جبکہ تین تین ارب ڈالر دوست ممالک سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین سے مل جائیں گے پھر سوال یہ ابھرتا ہے کہ صرف قرضوں سے غریب کا گھر نہیں چلتا، غریب ملک پاکستان کیسے چلے گا؟ یقیناً اس مشکل صورت حال میں حکومت کو مزید مشکل اور سخت فیصلے کرنے پڑیں گے خواہ حکومت ہزار مرتبہ بھی معاشی بحران کی ذمہ داری عمرانی دور پر ہی کیوں نہ ڈالے، کیونکہ اتحادی تو برسرِ اقتدار ہی مہنگائی اور معاشی بحران کے خاتمے کے نعرے پر آئے تھے، وقت ایک سا نہیں رہتا، آج عمران خان نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کر دی ہے اب تو شہر شہر، گائوں گائوں نہیں، چوک چوراہوں میں بھی پوچھا جائے گا کہ ’’ڈار اور ڈالر‘‘ کہاں ہیں؟ اس صورت حال میں محب وطن پاکستانی نفسیاتی مریض بن گئے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ پاکستان تو نواز شریف کے دور میں ایشین ٹائیگر بنتے بنتے عمران ٹائیگر کے دور میں بلّی کیسے بن گیا؟ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ نااہل حکومت، ناتجربہ کاری میں حکومت گنوانے کے بعد ضدی عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈالر بھیجنے سے روک دیا، اب ڈالرز سرکاری طور پر نہیں، ہنڈی کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے آ رہے ہیں۔ یہ بیان عمران مخالف ہونے کے باوجود ان کی حمایت کا باعث بن رہا ہے کہ عمران خان نہ صرف مقبول لیڈر ہیں بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد ان کا کہنا بھی مانتی ہے جبکہ حکومتی دعویٰ یہی ہے کہ ہم عمران کی کرامات بھگت رہے ہیں۔عمرانی مؤقف بالکل مختلف ہے کہ معاشی بحران سابق حکمرانوں کی لوٹ مار اور قومی خزانہ لوٹنے والون کی جادوگری ہے۔ ہم نے احتساب کے ذریعے مال مسروقہ کی برآمدگی کی
منصوبہ بندی کی تھی لیکن جنرل (ر) باجوہ رکاوٹ بن گئے، کس نے کیا کیا؟ بحران غلط پالیسیوں کی
وجہ سے ہے کہ قومی ڈاکوئوں کے باعث، اس بات سے قطع نظر عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ چور بھی اپنے اور حکمران بھی اپنے، یہ تو الزامات کی سیاست میں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے رہیں گے ہم کہاں جائیں؟ اتحادی حکومت عوام کو ریلیف دینے آئی تھی پھر مشکلات کیوں؟ انہیں تو ڈالر نہ چاہیے اور نہ ہی ان کی قوت خرید ہے انہیں تو صرف دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت درکار ہے۔ 75سالہ آزادی میں بھی ان کا نصیب غلامی ہی ہے اشرافیہ موجیں کر رہی ہے۔ غریب روٹی کو ترس رہا ہے۔ ریلیف، ریلیف کے سبز باغ دکھا کرمزید سہولتیں چھینی جا رہی ہیں لیکن ڈالر بہادر کی بدمعاشی میں بھی ریلیف ڈار صاحب کو دیا جا رہا ہے،نیب نے کروڑوں کے منجمد اثاثے اور قرق شدہ جائیداد بھی دینے کی خوشخبری سنا دی ہے، ایسی میں غریب تو انڈا، مرغی اور پیار نہیں خرید سکتا تو خودکشی ہی کرے گا کیونکہ گھر جائے گا تو اس سے بیوی بچے کھانے کو مانگتے ہیں۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ زرعی ملک اور زرخیز زمینوں کی موجودگی میں غریب آدمی سبزیاں بھی نہیں خرید سکتا کیا موجودہ حکومت یا ماضی کے حکمران اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ اس سیاسی اور معاشی گورکھ دھندے میں غریب کی کیا غلطی ہے؟
حقیقت یہی ہے کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں، ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کروناکے بعد دنیا بھر میں معیشت تباہ ہو گئی۔ برطانیہ، فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک نہیں، امریکہ اور چین بھی معاشی بحران میں پھنسے ہیں تاہم ان کے اور ہمارے بحران میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم اور سسٹم ترقی پذیر ملکوں سے مختلف ہوتا ہے لیکن صرف فرانس کے دارالحکومت پیرس کی موجودہ صورت حال کو پرکھا جائے تو پتا چل جائے گا کہ وہاں پٹرول کے بحران کے باعث چھ چھ روز پمپ بند رہتے ہیں اور ساتویں دن کو ٹہ سسٹم کے تحت پٹرول میسر آتا ہے ۔ اچھے بھلے لوگوں نے اپنی گاڑیاں گیراج میں کھڑی کر دی ہیں۔ بازاروں میں سناٹا ہے کیونکہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹ اکثر بند بڑے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ وہاں کے لوگ ’’یلیو جیک‘‘ تحریک کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرے کرتے رہے لیکن حکومت نے ایک نہیں مانی بلکہ سخت ترین فیصلے کئے پھر بھی نہ وزیراعظم مستعفی ہوئے اور نہ ہی نئے الیکشن میں مسترد،آج بُرے دن حالات میں بھی ان کی وزارتِ عظمی قائم ہے، وجہ صرف ایک ہی ہے کہ وہاں قانون کی بالادستی اور سسٹم کو اولیت دی جاتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش جیسا چھوٹا سا ملک دنیا کے بدترین معاشی حالات میں بھی بحران میں مبتلا نہیں، آبادی کا کنٹرول اور مثبت معاشی منصوبہ بندی نے انہیں محفوظ بنا دیا۔ اس صورت حال میں جمہوریت کا تسلسل بھی قابل ذکر ہے وہاں سیاسی انتقامی کارروائیاں بھی ہوئیں اور پاکستان کی حمایت کرنے والے پھانسی پر بھی چڑھائے گئے لیکن جمہوری نظام پٹری سے نہیں اُترا، بنگلہ دیش کی ترقی اور معاشی استحکام بڑے بھائی پاکستان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔کاش یہ بات ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو سمجھ آ جائے کہ پہلے ریاست پھر سیاست۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم سیاست کو دائو پر لگا کر ریاست بچانے نکلے ہیں لیکن مہینوں گزرنے کے بعد بھی وہ کامیابی دکھائی نہیں دے رہی جس کی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں۔ قوم ڈار اور ڈالر کی بحث میں الجھی ہوئی ہے تاہم 2022ء مشکل سال گزر گیا، اب ملک کے نامور ماہرین نجوم کا دعویٰ ہے کہ جنوری 2023ء کے بعد پاکستان اور پاکستانیوں پر سے مشکلات اور پریشانیوں کے بادل چھٹ جائیں گے۔ پیش گوئی تو ’’من و سلویٰ‘‘ کی دی جا رہی ، اللہ کرے ایسا ہی ہو، آمین!لیکن ہم اور آپ کو ضروریات زندگی میں ریلیف مل جائے اور دو وقت کی روٹی کا حصول آسان ہو جائے تب توپاکستانی اپنی ہنستی کھیلتی زندگی میں لوٹ جائیں گے بلکہ ڈار اور ڈالر کی بحث بھول کر ایک مرتبہ پھر پُرعزم ہو کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل نکلیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button