Editorial

قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس

قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس

قومی سلامتی کمیٹی نے شہدا کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی کسی کو قومی سلامتی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرأت و بہادری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں، پوری قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بیانیہ پر متحد ہے۔ پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا، سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس نے ملکی معیشت اور امن و امان کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل دو جنوری کو دوبارہ ہوگا جس میں سامنے آنے والی تجاویز کی روشنی میں مزید فیصلے کیے جائیں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اتفاق کیا ہے کہ قومی سلامتی چیلنج کرنیوالے کہیں چھپ نہیں سکیں گے،انہیں پوری قوت سے جواب دیا جائے گا ۔مشکل سے حاصل امن کسی کو خراب نہیں کرنے دیں گے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں،قوم کی دعائیں اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں، دہشت گردی کے خلاف آہنی عزم اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔اجلاس میںقومی ایکشن
پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے سے متعلق ،مرکز اور صوبوں کے درمیان کوآرڈی نیشن بہتر بنانے کے لیے نیکٹا کے کردار پر ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ حملوں پر بھی بریفنگ دی گئی ہے، لہٰذا کل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں خفیہ اداروں کی بریفنگ کی روشنی میں قومی سلامتی کمیٹی، اہم فیصلوں کی منظوری دے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ آرمی پبلک سکول نے جس طرح ہماری سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے پر مجبور کیااگر اِس کے تمام بیس نکات پر من و عن عمل ہوتا تو آج یقیناً امن و امان کے لحاظ سے حالات یکسر مختلف ہوتے، مگر دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متفق اور متحد ہے، اِس معاملے پر ہمارا ایک ہی بیانیہ ہے اور دراصل نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ہی اِس بیانیہ پر صد فی صد عمل درآمد کیاجاسکتا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، نیشنل ایکشن پلان اور شہدا کی قربانیوں کے بغیر کامیابی قطعی ممکن نہیں تھی۔ آج وطن عزیز میں ایک بار پھر دہشت گردسر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے، لہٰذا بلاتاخیر ان عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے جو ریاستی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لینا چاہیے اور جن نکات پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا، اُن پر بلاتاخیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر عمل کیاجائے کیونکہ سانحہ آرمی پبلک سکول کے فوری بعد قومی سطح پر اتفاق رائے کے بعد بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے کرطے کیا گیا تھا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات سے کیسے نجات حاصل کی جائے گی اور کس طریقے سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت بھی کی ہے اورفوری قلع قمع پر زور بھی دیا ہے، لہٰذا اب پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردوں کو کچلنے کی ضرورت ہے، پہلے بھی پاک فوج اورسکیورٹی اداروں نے ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالا، جو سرنڈر ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایاگیااور جو اپنے انجام کو پہنچنا چاہتے تھے، وہ موقعے پر ہی جہنم واصل ہوئے ، ہمیں اِس عفریت سے بہرصورت نجات حاصل کرنی ہے اسی لیے ہمہ وقت پوری قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ اِس عظیم مقصد کے لیے متحد و متفق اور اس سمت پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور کوئی نہ کوئی ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس پر اگر پوری طرح عمل کیا جاتا تو دہشت گردی و انتہا پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔دہشت گردی وطن عزیز اور ہر پاکستانی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ارباب اختیار کو اِن تمام معاملات کا بغور جائزہ لینا چاہیے جو نکات کسی بھی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے۔ پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے تو نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرکے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کردی ہے اور آج بھی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی تاک میں ہیں مگر سیاسی قیادت کو بھی اپنے حصے کا کام بغیر کسی توقف اور مصلحت کے فوری کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button