ColumnKashif Bashir Khan

سال نو اور آتش فشاں! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

سال نو اور آتش فشاں!

آج دنیا بھر میں نیا سال منایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں گزشتہ سال کاگزرا ہوا آخری دن اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو ہر حال میں کروانے کے حکم نامے کو ہوا میں اڑاتے ہوئے سنگین ترین جرم کر ڈالا اور پریشان کن اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس آئین شکنی پر ملک کی کسی بھی عدالت نے تادم تحریر کوئی ایکشن نہیں لیا اور دنیا بھر میں جو مذاق ریاست پاکستان میں آئین و قانون کی پامالی پر اڑایا جاتا ہے اس میں اضافہ کیا گیالہٰذامجھے حیرانی ہے کہ جس قسم کی اقلیتی حکومت وفاق میں مسلط کی گئی ہے، اس نے پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ حال کیا ہے وہیں ملک میں قانون و آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جبکہ عوام کی حالت زار نہایت ہی پریشان کن اور قابل ترس ہو چکی ہے۔
کسی بھی ملک کی اقتصادی حالت کا جائزہ لینا ہو تو وہاں کی عوام کی حالت زار سے اندازہ لگایا جاتا ہے ، جتنی عوام خوشحال ہو گی اتنا ہی وہ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا۔پاکستان کی بدقسمتی کہ جہاں پچھلی کچھ دہائیوں سے یہ چلن عام ہے کہ جو بھی نئی حکومت آتی ہے، وہ کرپشن اور تمام اقتصادی ناکامیوں کو جانے والی حکومتوں پر ڈالتی چلی آرہی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، جس کی مدت آئین میں پانچ سال ہے، کو ہر مرتبہ ہی وقت پورا نہیں کرنے دیا جاتا اور عوام پر کرپشن کر کے جمہوریت کا نام لے کر ظلم کیا جاتا ہے۔اب اپریل 2022 کو ہی لے لیں جن پر
اربوں کھربوں کے کرپشن کے کیس چل رہے تھے، ان کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا اور جو پاکستان سے کرپشن کر کے ملک سے باہر بھاگے ہوئے تھے، انہیں بھی واپس بلا کر ان کی نہ صرف مفروری ختم کر دی گئی بلکہ 2022 میں تو ایسے شخص کو سینیٹ کا ممبر بنا دیا گیا جو پچھلے پانچ سال سے ملک سے مفرور تھا اور دنیا میں یہ انوکھا اور منفرد واقعہ ہوا کہ کسی بھی قسم کی عدالتی معافی یا کارروائی کے بغیر پہلے سینیٹ کےرکن کا حلف اٹھوایا گیا اور پھر عدالت میں پیش کیا گیا۔جی ہاں میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بات کر رہا ہوں،اسی طرح وزیر اعظم پاکستان کے صاحبزادے اور داماد کی بھی مفروری ختم کر کے انہیں ضمانتیں فراہم کر دی گئی ہیں۔یہ ہے قائد کا پاکستان، جس کا آئین متقاضی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو اور بڑے چھوٹے اور امیر غریب کیلئے ایک قانون ہولیکن جس طریقے سے نیب کے قوانین کو ادھوری قومی اسمبلی سے منظور کروا کر پاکستان کے کھربوں لوٹے ہوئے پیسوں کو ہضم کیا گیا ایسا تو شاید کینیا جیسے ملک میں بھی نہیں ہوتا۔ افسوس تو اس حقیقت پر بھی ہے کہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر کے گزشتہ سال کے نو ماہ میں کئے گئے قریباً 90 فیصد فیصلے قانون و آئین سے متصادم تھے اور ان کو ملک کی عدالتوں نے اُٹھا اُٹھا کر باہر پھینکا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ایسا الیکشن کمشنر جو بار بار حکمرانوں کے ساتھ مل کر ملک میں نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتا دکھائی دیتا ہے اور اس کی بددیانتی پر مبنی فیصلوں کو عدالتیں بھی اپنے فیصلوں کے ذریعے مسلسل کالعدم قرار دے رہی ہیں ،کس وجہ سی چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بیٹھا ہوا ہے۔
31 اگست سے کچھ دن قبل وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ کے کہنے پر جس قسم کا کھلواڑ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں الیکشن کمیشن نے کر کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے وہ عدالتوں اور نظام کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے 31 دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح امکانات کے باوجود بلدیاتی الیکشن نہ کروانا فاضل عدالت اور آئین پاکستان سے انحراف ہی نہیں بلکہ آئین پاکستان اور ریاست سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور ملکی اعلیٰ عدالتوں کو اس کا فوری نوٹس لے کر چیف الیکشن کمشنر کو فوری طور پر کام سے روکنا چاہی کہ اگر پاکستان میں دو وزرائے اعظم عدالتوں کے ذریعے گھر بھیجے جا سکتے ہیں تو پھر موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو کیوں آئین و قانون کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔قارئین کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو نواز شریف سعید مہدی کے داماد ہیں اور حال ہی میں حکومت پاکستان نے ان کی اہلیہ کو چیف کلکٹر اپریزمنٹ لگا کر انہیں خوش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔(سابق طاقتور بیوروکریٹ سعید مہدی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی تعلقات بارے مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب دنیا جانتی ہے)اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ترقی ہوئی اور عوام کا معیار زندگی بلند کیا گیا وہاں وہاں بلدیاتی اداروں کا کردار اور کارکردگی مثالی نظر آتی ہے لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں سے برسر اقتدار آنے والی تمام نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کی جبکہ ملک میں لگے تمام مارشل لا میں آمروں نے پاکستان میں بلدیاتی نظام کو نہ صرف رائج کرنے کی عملی کوششیں کیں بلکہ بلدیاتی انتخابات کروائے بھی۔دراصل بلدیاتی نظام کو رائج کرنے اور ان کے انتخابات کروانے کے بعد جہاں طاقت نچلی سطح پر منتقل کرنا پڑتی ہے وہاں اربوں کے ترقیاتی فنڈز بھی بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرنا پڑتے ہیں جبکہ مختلف صوبائی حکومتیں یہ اربوں کے فنڈز جو ان کی کرپشن اور سیاسی رشوتوں کے کام آتے ہیں، کو چھوڑنا نہیں چاہتیںلیکن رجیم چینج کے تحت بنائی اور لائی گئی وفاقی حکومت کا وفاقی دارالحکومت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ملی بھگت سے پہلے اسلام آباد کی یو سیز کو بڑھانے کی کوشش اور پھر ان بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنا اس بات کا غماز ہے کہ پی ڈی ایم حکومت جہاں عوام کیلئے مہنگائی کا طوفان لانے کا سبب بنی ،وہاں وہ انتخابات سے بھی بھاگ رہے ہیں اور ملک میں آئین و قانون سے فرار کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔
نیب قوانین میں ادھوری پارلیمنٹ سے ترامیم کر کے اربوں فائدہ اٹھانے والے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے کبھی اسمبلی کی مدت میں ایک سال کے اضافے اور کبھی ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات کرتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کے غم ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔نئےسال میں داخلے کے وقت آج ہم معاشی ڈیفالٹ کے قریب ہیںاور حکومتی ناکام پالیسی کے باعث ملک میں دوبارہ سے شدید دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں اور ایسے میں انتخابات سے فرار ہونے کی حکومتی کوششیں،ملک پاکستان میں طوائف الملوکی کی عکاسی کر رہی ہیں لیکن آج وقت آن پہنچا ہے کہ آئین و پاکستان سے کھلواڑ کرنے والوں کو فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔پاکستان ہرگز ہرگزبنانا اسٹیٹ نہیں اور ریاست پاکستان کو اگر بچانا ہے تو پاکستان میں قانون و آئین کی حکمرانی کو لازمی قرار دیتے ہوئے قانون و آئین سے اپنے آپ کو بالاتر یاافضل سمجھنے والے تمام افراد کو عبرتناک انجام تک پہنچانا ہو گا، ورنہ جس آتش فشاں پر پاکستان کھڑا ہے اگر وہ پھٹ گیا تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button