ColumnZameer Afaqi

اب جنگ کا میدان معاشی ہونا چاہیے ؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں رہیں بلکہ جنگوں کی کوکھ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں ،ہمارے ارد گرد متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی خوشحالی تھی، ترقی تھی، امن تھا سکون تھا لیکن آج یہ ممالک کھنڈرات کا نشان ہیں۔ کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی ملک کے عوام کی قسمت کا اختیار چند مفاد پرست جنونی حکمرانوں یا اسٹیبلشمنٹ کو دیا سکتا ہے؟ ہم دور(عراق ،کویت شام ،ایران ،لیبیا) نہیں جاتے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جہاں کبھی دودھ اور شہد کی نہریں اگر نہیں بھی بہہ رہی تھیں لیکن کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ہم پلہ ضرور تھا جہاں جدید اعلیٰ تعلیمی ادارے، صحت عامہ کی بہترین صورتحال سیر و تفریح کے وافر مواقع سیاحت میں ترقی بھی نظر آتی تھی لیکن وہاں کے حکمرانوں کی سوچ اور ذاتی مفاد نے اس ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا اور آج وہاں کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی ہلاک یا معذور فرد نہ ہو، خواتین اور بچوں کی حالت زار پر دانستاً خاموشی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگی جنون خواہ کسی بھی جذبے کے تحت ہو، تباہی لاتا ہے، اس لیے آج اگر کوئی جنگی میدان ہے تو وہ معاشی میدان ہے، جاپان او چائنہ اسی میدان میں متحرک رہ کر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ آج افغانستان عملاً جاے عبرت ہے، جہاں یتیم بچوں، بیوائوں اور زخمیوں کی تعداد کا شمار ہی ممکن نہیں جبکہ عمارت کھنڈرات کانظارہ پیش کرتی ہیں ۔ ناجانے ایسا کب تک رہے گا اس بارئے کوئی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ کوئی قوم بھی بحیثیت مجموعی بری نہیں ہوتی اور نہ اس کا مزاج آتشین ہوتا ہے، خود ساختہ تفاخر، تعصب اور دوسروں سے نفرت کاسبق جو بچپن سے ان کے زہنوں میں ڈالا یا پڑھایا جاتا ہے اس سے جان چھڑانا بہت مشکل اس لیے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کاروبار ہی انہیں افعال کے ذریعے چلتا ہے جس کی خاطر وہ انسانوں کواپنے خود ساختہ مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
آج کل جنگیں کسی اصول و ضابطے، حق یا کسی مظلوم قوم کی ہمایت کیلئے نہیں بلکہ اپنی طاقت کے اظہار اور اسلحہ کی نمائش اور بادشاہتیں بچانے کیلئے لڑی جارہی ہیں جس کے پیچھے بعض مملکتوں ،قوموں، گروہوں کے مفادات کے ساتھ کاروباری مفادات بھی جڑئے ہیں جتنی انسانیت آج غیر محفوظ ہو چکی ماضی میںاس قسم کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جب تیر ، تلوار اور مردانہ طاقت ہی بڑے ہتھیار ہوا کرتے تھے، اب تو ایک بٹن کے دبانے سے لاکھوں انسان پل بھر میں لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ ملکوں کی سطح پر جنگیں بڑی طاقتوں کیلئے منافع بخش کاروبار رہی ہیں لیکن مشرق وسطی خصوصاً شام ،یمن لیبیا میں جاری خانہ جنگی جس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آنے والے ہیں ،بہت سے عام لوگوں کیلئے بھی مفید کاروبار بن گئی ہے۔
دوسرے ملکوں میں جاری خانہ جنگی کے نام پر اپنے ملک میں افراتفری پیدا کرنے والوں نے کیااس بات پر کبھی غور کیا ہے کہ خانہ جنگی ، بدامنی اور فرقہ وارنہ جنگیں مسلمان ممالک ہی میں کیوں ہورہی ہیں؟کبھی ہم روس کے خلاف دوسروں کی جنگ لڑتے ہیں اور کبھی کسی اور کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کود جاتے ہیں جبکہ ہمارا اپنا ملک بھوک بدامنی اور افلاس کا شکار ہو چکا ہے جہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہی۔روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کیلئے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے واسطے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنابہت ضروری تھا۔اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی مرضی کے میدان جنگ سجائے۔امریکہ نے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کچھ گروپ ایسے بھی بنارکھے ہیں کہ جن کے خلاف کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جنگی کارروائی کا جواز پیدا کیاجاسکے۔ القائدہ، طالبان، بوکوحرام اور داعش سمیت کئی ایک مسلح تنظیمیں مختلف ممالک کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔یہ ممالک ان تنظیموں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنا کثیر سرمایہ اپنی حفاظت اور سامانِ حرب اکٹھا کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شام کی طویل خانہ جنگ میں ڈھائی لاکھ سے زائدافراد بچوں اور خواتین ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد ہمسایہ ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یمن میں جاری خانہ جنگی20 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے عراق کی خانہ جنگی کی کوکھ سے دہشت گرد تنظیم داعش نے جنم لیا 45 ہزار سے زائد عراقی زندگیوں سے محروم اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں، لیبیا کی خانہ جنگی 30 ہزار سے زائد افراد کی زندگیوں کو موت سے آشکار کر چکی ہے۔ صومالیہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، اسلحہ بک رہا ہے، مسلمان ممالک خون ریزی کا شکار ہو رہے ہیں، جلسے اور جلوسوں میں شدت لانے کیلئے ڈالر اور ریال فراہم کیے جارہے ہیں ، ہوش مندی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی جارحیت کے بعد جنوبی ایشیا میں جنگ کے ساے منڈلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں دو ایٹمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا بیانیہ بھی سامنے آرہا ہے جبکہ جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے مندرجہ ذیل رپورٹ اور اعداد و شمار سوچنے والوں کیلئے ہیں انہیں پڑھیے اور پھر سوچئے کیا اب بھی سوچنا نہیں بنتا؟
ہیرو شیما میں جونہی ایٹم بم پھٹا تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں شہر کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیایہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کیلئے تھا لیکن پورا ہیروشیما شہر اور مْضافات میں تمام جاندار جل کر خاکسترہو گئے حتی کہ عمارتیں تک پِگھل گئیں۔بم پھٹنے کے ایک سیکنڈ کے اندر اندر قریباً ایک لاکھ اِنسان بھاپ اور دُھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے، کوئی جاندار زندہ نہیں بچا۔ ہیروشیما پر بسنے والے اِنسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جو بچ گئے وہ مرنے کی خواہش کر رہے تھے ۔پورے ملک سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔جو ایٹم بم ہیروشیما پر پھینکا گیا تھا اْس سے 4000 ڈگری سیلسیس کی حرارت خارج ہوئی تھی لیکن اِسوقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو نیوکلیئر بم موجود ہیں وہ 25000 سے 40000 ڈگری سیلسیس کی گرمی خارج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔یہ گیم محض چند سیکنڈز کی ہوگی اور کرہ ارض کے میدانوں میں صحراؤں میں جنگلوں میں پہاڑوں میں، سمندروں یا دریاوں کے پانی کی روانی میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا،کْچھ دِکھانے کیلئے کوئی بریکنگ نیوز اور ٹاک شو نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دیکھنے والا۔
دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جنگوں نے ہمیں کیا دیا اور کیا اب ہمارا جنگی میدان معاش نہیں ہو ناچا ہیے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button