ColumnHabib Ullah Qamar

ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کو ہر صورت قائم رکھا جائے گا اور ریاست کی رٹ ہر صورت یقینی بنائی جائے گی۔شہداء اور ان کے اہل خانہ نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ شہباز شریف نے سی ایم ایچ راولپنڈی میں بنوں آپریشن میں زخمی ہونے والے نوجوانوں سے ملاقات کی اور ان کی بہادری اور بلند عزم و حوصلے کو سراہا۔اس موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اوروزیردفاع خواجہ محمد آصف بھی موجود تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کازخمی جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ قوم آپ کی قربانیوں کو کسی صورت نہیں بھول سکتی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے افسران اور جوانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارااور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں ان کی مہارت کو سراہا۔
پاکستان پچھلے طویل عرصہ سے مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے۔اسلام دشمن قوتیں منظم سازشوں و منصوبہ بندی کے تحت یہاں کا امن برباد کرنے کیلئے تخریب کاری،دہشت گردی،بم دھماکوں اور خودکش حملوںکو پروان چڑھانے کی سازشیں کرتی آرہی ہیں۔اس مقصد کے تحت بھارت،امریکہ اور بعض دوسرے ملکوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اورملک میں دہشت گردی کیلئے کئی گروہوں کی آبیاری کی گئی۔یہ تکفیری گروہ نائن الیون کے بعد سے خاص طور پر سرگرم رہے اور مساجدومدارس،سکول،پبلک مقامات اور دفاعی اداروں سمیت کوئی جگہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہی جہاں دہشت گردوںنے عام انسانوں کا خون نہ بہایا ہو۔بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ان لوگوںنے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑااور ان کے خون سے بھی ہولی کھیلی گئی۔ ایک وقت تھا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب ملک میں کسی نہ کسی جگہ
نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کی گھنائونی واردات نہ ہوتی ہو،پورے ملک میں بدترین دہشت گردی جاری تھی اور ہر روز اپنے ہی بے گناہ لوگوں کے لاشے اٹھانا پڑ رہے تھے،بھارت نے افغانستان میں قونصل خانوں کے نام دہشت گردی کے کئی اڈے بنا رکھے تھے جہاں ہندوستانی فوج کے افسران دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان داخل کرتے رہے اور ملک بھر کے مختلف شہروں و علاقوں میں دہشت گردی کی بدترین کاروائیاں کی گئیں، اس دوران پاکستانی افواج اور دفاعی اداروںنے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کامیاب آپریشن کر کے دہشت گردی کے نیٹ ورک بکھیر کر رکھ دیے۔ سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردی میں ملوث درندے مارے گئے اور بڑی تعداد میں گرفتار ہوئے جنہیں جیلوں میں ڈالا گیا تو بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی وارداتیں بھی رک گئیں۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ادوار میں پاکستانی دفاعی اداروں کے جوانوںنے بے پناہ قربانیاں پیش کیں،اس دوران عوام پاکستان کی بھی انہیں زبردست حمایت حاصل رہی جس سے ملک میں امن قائم ہوااور اسلام دشمن قوتوں کی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سب سازشیں بری طرح ناکام ہو گئیں۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست نے دہشت گرد عناصر کی اور زیادہ قوت توڑ دی اور انڈیا کو بھی اپنا سب کچھ سمیٹ کر وہاں سے نکلنا پڑا۔ اس کے بعد پاکستانی قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ اب کم سے کم اس طرف سے دہشت گردی کا سلسلہ مکمل طور پر رک جائے گا لیکن کچھ دیر تک تو واقعتا ہر قسم کی دہشت گردی پر قابو رہا لیکن اب ایک مرتبہ پھر وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی خوفناک لہر کا آغاز ہوا ہے جس میں درجنوں افراد شہید و زخمی ہوئے ہیں۔امریکہ نے افغانستان سے نکلتے وقت وہاں کی جیلوں میں موجود بڑی تعداد میں جرائم پیشہ عناصرکو رہا کیا اور تکفیری گروہوں کو اسلحہ اور دولت فراہم کی تاکہ جب وہ یہاں سے نکل جائیں تو یہ لوگ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں پھر سے دہشت گردی کو پروان چڑھا سکیں۔یہ اتحادی قوتوں کی طرف سے اسی بیج کے بوئے جانے کا نتیجہ ہے کہ جہاں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کی گئیں اورکئی جید علماء کرام کو شہید کیا گیا وہیں تکفیری گروہوں نے افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں بھی ایک بارپھر دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔حال ہی میں جب سے تحریک طالبان نے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے پاکستان میں دفاعی اداروں پر پھر سے حملے شروع ہو گئے ہیں۔بنوں،لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوبی و شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں۔
اس سلسلہ میں سب سے بڑی کارروائی بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے حراستی مرکز میں کی گئی جہاں زیرحراست دہشت گردوںنے منصوبہ بندی کے تحت ملنے والی مدد سے سی ٹی ڈی اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر انہیں یرغمال بنا لیااور سوشل میڈیا کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمام دہشت گردوں کو افغانستان جانے کی اجازت دیں ورنہ وہ حراست میں لیے گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو قتل کر دیں گے۔اس کارروائی کو ہندوستانی میڈیا نے بھی بہت اچھالا اور پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا تاہم افواج پاکستان نے ایک بار پھر دنیا بھر کے سامنے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی دہشت گردی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے،پاک فوج کے جوانوںنے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بازیاب کروانے کیلئے کامیاب آپریشن کیا جس میں پچیس دہشت گرد مارے گئے اور دس گرفتار ہوئے جبکہ تین سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے اور دو افسران سمیت دس سپاہی زخمی ہوئے۔
چند سال قبل پشاور میں جب سانحہ اے پی ایس ہوا تو اس وقت پورے ملک میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جارہا تھا جبکہ امسال بھی ان دنوں میں ہی سی ٹی ڈی حراستی مرکز میں ایک بڑی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی۔جب سولہ دسمبر کے دن سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آیا،اس وقت بھی بعض لوگ ایسے تھے جو کلمہ پڑھے والوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ وہ خود کو حق پر سمجھتے تھے مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ جس جنگ کووہ اپنی سمجھ رہے تھے یہ درحقیقت انڈیا کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی کچھ ناسمجھ لوگ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ان کی ہی سازشوں کوتقویت پہنچا رہے ہیں۔بین الاقوامی طاقتوں سے پاکستان کا امن برداشت نہیں ہو رہا۔ وہ ایک بار پھر پاکستان کے شہروں و علاقوں کو خون میں نہلانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر تکفیری گروہوں کی زبردست انداز میں سرپرستی کی جارہی ہے اور انہیں افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب منظم کیا جارہا ہے۔یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے جس کا بخوبی جائزہ لینے اور اس حوالے سے مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ افغان حکومت کو تکفیری گروہوں کی کارروائیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کروانی چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی،پاکستانی افواج اور اداروںنے افغانستان میں امن بحال کروانے کیلئے افغان طالبان کا بھرپور ساتھ دیا ہے،اس لیے انہیں بھی سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تو نہیں کی جارہیں۔اسی طرح پاکستانی حکومت بھی نظر رکھے کہ اگر طالبان حکومت تکفیری گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کر پا رہی تو ان سے کہنا چاہیے کہ وہ پاکستانی فوج کو دہشت گردوں کی قوت توڑنے کی اجازت دے اور اگر انہیں اس حوالے سے کسی قسم کی ضرورت ہے تو اس کیلئےپاکستان پوری طرح حاضر ہے۔پاکستانی حکام کواس وقت دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے میں مشکل کا سامنا اس لیے کرنا پڑرہا ہے کہ انہیں سیاست میں مفادات سمیٹنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اٹھا رہا ہے لیکن حکمران ابھی تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سی ٹی ڈی مرکز پر دہشت گردانہ حملہ کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ بیان بازی کی گئی جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے اور دہشت گرد قوتوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کیلئے سیاستدانوں سمیت قوم کے ہر طبقہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کر کے ہی پاکستان کا امن برباد کرنے کی سازشیں ناکام بنائی جاسکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button