ColumnNasir Sherazi

گرما گرم سیاسی پروگرام .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ستر کی دہائی ختم ہوئی تو زمانے نے ایک کروٹ بدلی جس کے ساتھ ہی بہت کچھ بدل گیا، طور طریقے، عادت و اطوار، ذوق و شوق، رسم و رواج، رفتار کار کے ساتھ ساتھ اوقات کار بھی۔ نئی دہائی ایجادات لے کر آئی۔ وی سی آر، کمپیوٹر، کلاشنکوف، سیل فون، انٹرنیٹ اور اس سے جڑی سہولیات نے انقلاب برپا کردیا۔ وی سی آر کیلئے ذوالفقار علی بھٹو۔ کلاشنکوف کیلئے جنرل ضیا الحق، سیل فون اور انٹرنیٹ کیلئے پرویز مشرف اور بعد میں آنے والے سربراہان مملکت کو کسی بھی قسم کا الزام دینا کسی بھی طور درست نہیں۔ ایجادات زندگی آسان بنانے کیلئے کی جاتی ہیں۔ اس کا غلط استعمال تو ہم خود کرتے ہیں، حکومت کا کام ان چیزوں کے غلط استعمال کو روکنا ہے، بعض حکومتیں نہیں بلکہ تمام حکومتیں پاکستان میں ان ایجادات کے غلط استعمال کو روکنے میں ناکام رہیں۔
وی سی آر آنے سے پہلے سنیما کا دور تھا، پاکستان میں اردو، پنجاب اور دیگر علاقائی زبانوں میں اچھی فلمیں بنائی گئیں، موضوعات چند ہی تھے لیکن انہیں مختلف انداز میں فلما کر صاف ستھری تفریح مہیا کی گئی۔ انگریزی فلموں کا اپنا مزاج تھا۔ ان میں رومانس، جنگ عظیم اول و دوم، تاریخی واقعات اور جاسوسی کے مشن مقبول موضوعات تھے ان فلموں میں ایک چُمی اور ایک بھرپور جپھی کے علاوہ کوئی قابل اعتراض بات نہ ہوتی تھی جس پر ملک بھر میں شور اٹھ سکے۔ یہ فلمیں کہانی، ڈائریکشن سنیماٹوگرافی اور اداکاری کے زور پر کامیابی حاصل کرتی تھیں، مکالمے بھی خوب ہوتے تھے لیکن ہمارے یہاں مکالموں کو سمجھنے والے ان پر غور کرنے والے اور ان سے لطف اٹھانے والے بہت کم ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد ’’سائیڈ پروگرام‘‘ والی فلموں کا دور آیا جو تباہی کا پہلا دور تھا۔ حکومت نے اس پر توجہ دینے کی بجائے آنکھیں بند رکھیں۔ اخبار میں فلم کے اشتہار کے ساتھ جلی حروف میں لکھا جاتا تھا’’گرما گرم پروگرام‘‘ بس یہی تین حرف فلم کی کامیابی اور کھڑکی توڑ ہفتے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ گرما گرم پروگرام پندرہ منٹ پر مشتمل ہوتا تھا۔ عوام کو پسند آتا تو وہ ہنستے مسکراتے سنیما سے نکلتے اور اگلے شو کے منتظر تماش بینوں کو بتاتے کہ پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ فلم پسند نہ آتی اور پیسے ضائع ہونے کے خیال میں سنیما کا فرنیچر توڑ دیا جاتا بعض اوقات تو سنیما کو آگ لگادی جاتی۔ اس قسم کی فلموں کا کاروبارکرنے والے ڈسٹری بیوٹر اور سنیما مالکان اِس بات کو یقینی بناتے کہ فلم ٹھنڈی نہ قرار پائے، گرما گرم کا تاثر برقرار رہے۔
وی سی آر آنے سے گرم فلموں کا شوق رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، پہلا قدم بھارتی فلمیں تھیں، جن میں باریک اور نیم عریاں لباس میں ہیروئن کے ایک رقص پر فلم سپرہٹ ہوجاتی تھی، پھر ایسے رقص اور سین بڑھتے گئے، ابتدا میں وی سی آر مہنگی آئٹم تھی، کاروباری طبقہ آگے آیا یوں وی سی آر اور بھارتی فلمیں کرائے پر ملنے لگیں، ہر محلے میں ایک گھر ایسا ضرور ہوتا جہاں ہفتے کی رات سے یہ شو چلنا شروع ہوتے اور اتوار کی رات کو ختم ہوتے۔ وی سی آر کے ساتھ پہلے دو بعد ازاں چار فلمیں سو روپئے کرائے پر ملتی تھیں۔ مشرقی روایات اور مذہبی جذبات کا خیال رکھنے والے اذان کے وقت فلم روک دیا کرتے تھے، اذان ختم ہوتے ہی دھندے سے لگ جاتے، وقت گذرنے کے ساتھ ہزاروں افراد اس کاروبار میں آگئے۔ وی سی آر کی قیمت بھی کم ہوگئی، پھر گھر گھر وی سی آر پہنچ گیا تو بھارتی فلم کا کرایہ کم ہوکر فقط دس روپئے ہوگیا۔ دس دس روپئے میں چلنے والی فلمیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید گرم ہوگئیں، اب ان فلموں میں وہ سین بکثرت شامل کیے جاتے جنہیں مخرب اخلاق کہا جاتا ہے۔ اس سے اگلا دور مکمل ننگی فلموں کا تھا، ابتدا میں انگریزی فلمیں آئیں پھر بھارتی اور اس کے بعد تو ہر زبان ہر ملک اور ہر کلچر کی فلموںکی بہتات ہوگئی۔ ملاوٹ شدہ مال بیچنے، تنخواہ سے کئی گنا زیادہ رشوت لینے ، زخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے بعد کئی لوگ اس فلمی کاروبار سے کروڑ پتی بن گئے، دولت کی فراوانی اس کی نمائش سے ان لوگوں کا شمار شہر کے شرفا میں ہونے لگا، اس سے اگلا دور مزید تباہی کا دور تھا، گھروں میںایک کمرہ ریڈنگ روم یا لائبریری کا درجہ رکھتا تھا، اس کمرے کا وجود ختم ہوگیا، اس کی جگہ ہوم تھیٹر نے لے لی، جہاں خاندان بھر کے افراد بشمول بہو ،بیٹیاں، کمسن بچے اور بعض اوقات گھریلو ملازمائیں بھی اہتمام سے بیٹھ کر نیم گرم اور گرم فلمیں دیکھتے اور اپنے آپ کو موسٹ ماڈرن طبقے کا فرد سمجھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے اسی اثنا میں فلموںکے موضوع بھی بدل گئے، دولت کے حصول کیلئے جرائم کے ارتکاب، جنسی رقابت پھر دولت کے ذریعے حصول اقتدار کی جنگ جیسے موضوعات اہمیت اختیارکرگئے، ان فلموں نے نوجوان نسل کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا، اب کسی بھی جرم کی تحقیق کریں کہیں نہ کہیں مجرم ان فلموں یا ڈراموں کے زیر اثرنظر آئے گا۔
ہوم تھیٹر کے بعد اگلا مرحلہ گھروں میں بار اور ڈانسنگ فلور بننے کا آیا، ویک اینڈ آنے سے دو روز پہلے ویک اینڈ پارٹی کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں جو غروب آفتاب سے شروع ہوکر سپیدہ سحر نمودار ہونے تک چلتی ہیں ان پارٹیوں میںکاروبار، دوستیاں، دشمنیاں سب کچھ پروان چڑھتا ہے، یہ پارٹیاں منشیات کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہیں۔ جس طرح کسی اعلیٰ درجے کےریسٹورانٹ میں بوفے لگایا جاتا ہے، اسی طرح ان پارٹیوں میں چرس، افیون، شراب، گانجا، ہیروئن اور آئس مہیا کی جاتی ہے، پارٹی ہال کے ساتھ ان چیزوں کا سٹال موجود ہوتا ہے، ہر شخص اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق خریداری کرسکتا ہے، تمام کاروبار ایک سنہری اصول کے تحت ہوتا ہے یعنی ’’ادھار محبت کی قینچی ہے‘‘ یا ’’ادھار منع ہے‘‘ سٹال سے ملحقہ دو بیڈ روم بھی ہر قسم کی ضروریات کیلئے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں، اس کلچر نے زندگی کے تمام شعبوں میں جڑیں پھیلالی ہیں، حتیٰ کہ بعض سیاست دان بھی اس مکروہ شغل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ان میں مردوں کے علاوہ متمول خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بہت بڑی تعداد شامل ہے، ان خواتین کا تعلق نامور کاروباری اور سیاسی گھرانوں سے ہے، گذشتہ ایک برس میں ان خواتین اور مردوں کی متعدد آڈیو اور ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں نظر آنے والے کرداروں نے اپنی حرکات پر شرمندہ ہونے اور قوم سے معافی مانگنے کی بجائے انہیں صرف جعلی قرار دینا ہی کافی سمجھا، چند روز قبل ملک کی ایک مقبول سیاسی شخصیت اور ایک نامور گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون کی فحش گفتگو پر مبنی تین آڈیوز مارکیٹ میں آئی ہیں جنہیں’’لیجنڈ آف مولاجٹ‘‘ نامی فلم سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ انہی شخصیات سے متعلق تین عدد ویڈیوز بھی آچکی ہیں، عنقریب یہ ویڈیوز نیٹ پر دستیاب ہوں گی، اس کیلئے دس روپئے کی وی ایچ ایس یا پانچ روپے کی سی ڈی بھی نہیں خریدنا پڑے گی ، اس سیاسی گرما گرم پروگرام کی ایڈوانس بکنگ جاری ہے، کئی نئے کروڑ پتی بننے والے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button