Columnعبدالرشید مرزا

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

(آخری حصہ )
پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ معاشی میدان میں بنگالیوں کو 56 فیصد تسلیم کیا، نہ سماجی میدان میں، نہ روزگار کے دائرے میں۔ یہاں تک کہ 1970 میں جنرل یحییٰ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے سیاسی میدان میں بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایسا نہ ہوتا تو اقتدار خاموشی کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کردیا جاتا جو قومی سطح پر اکثریت کے نمائندے بن کر ابھرے تھے۔ مگر بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرلیا جاتا تو پھر ہمارا دارالحکومت کراچی اور اسلام آباد تھوڑی ہوتاپھر ہمارا دارالحکومت ڈھاکا ہوتا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ پھر پاکستان کی قوم کی تقدیر پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کے ہاتھ میں تھوڑی ہوتی، پھر پاکستان کی تقدیر بنگالیوں کے ہاتھ میں ہوتی اور یہ بات مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کو گوارا نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے شیخ مجیب کو ’’مقتدر‘‘ ماننے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کے حکمران طبقے کی نفسیات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات بجائے خود ہماری قومی تاریخ کا ایک سکینڈل ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ریٹائرڈ بریگیڈیئر اے آر صدیقی کا جیو کو دیا جانے والا انٹرویو یاد ہے۔ صدیقی صاحب متحدہ پاکستان میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ انہوںنے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے اہم سیاسی رہنما مولانا بھاشانی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ مولانا بھاشانی شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے امیدواروں کے خلاف اپنے نمائندے کھڑے کریں گے۔ مولانا بھاشانی کی سیاسی جماعت دیہی مشرقی پاکستان میں مقبول تھی، اور اگر مولانا بھاشانی شیخ مجیب کی راہ روکتے تو شیخ مجیب 1970ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ بریگیڈئیر صدیقی کے بقول جنرل یحییٰ نے مولانا بھاشانی کو اس سلسلے میں دو کروڑ روپے دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ مگر بالآخر ہوا یہ کہ مولانا بھاشانی نے شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ نہ لیا اور نہ انہیں دو کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ انٹرویو لینے والے شخص نے اے آر صدیقی صاحب سے پوچھا کہ جو کچھ طے پایا تھا اس کے نہ ہونے کا کیا سبب تھا؟ اس کے جواب میں صدیقی صاحب نے فرمایا کہ جنرل یحییٰ ملک توڑنے کا فیصلہ کرچکاتھا۔مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے اور بھارت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کیلئے اپنی سرحد کھولی تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پاکستانی بھارت میں پناہ گزیں بننے لگے۔ بھارت نے انہی پناہ گزینوں کو بروئے کار لاکر مکتی باہنی بنائی، مگر اس سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے نے کیا کیا۔
ممتاز صحافی آصف جیلانی کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں:ان دنوں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزین پرنس صدر الدین آغا خان سے میری لندن میں ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کا جامع منصوبہ پیش کیا تھا جس کا ایک مقصد مشرقی بحران کیلئے مصالحت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اُس وقت پرنس صدرالدین سخت دل برداشتہ تھے کہ پاکستان کی حکومت نے اس منصوبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نتیجہ یہ کہ ہندوستان نے اس منصوبے کو آسانی سے سبوتاژ کردیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان سے جان چھڑانے کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس بحران کے تصفیے کیلئے سوویت یونین کی طرف سے مصالحتی کوششوں کی جو پیشکش کی جارہی تھی وہ بھی ٹھکرائی جارہی تھی۔آصف جیلانی کے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کو بچانے کیلئے نہیں، ’’گنوانے‘‘ کیلئے متحرک تھا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جب مجیب الرحمٰن رہا ہوکر ڈھاکا پہنچا تو اس نے اعلان کیا کہ پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مجیب الرحمٰن کے جھوٹے دعوے اور ہندوستان کے زیر اثر عالمی پریس کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کا بھانڈا ایک بنگالی خاتون محقق شرمیلا بوس نے اپنی کتاب Dead Reckoning میں پھوڑا ہے اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔
آرمی ایکشن میں زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ہزار بنگالی قتل ہوئے۔ یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے مگر افسوس ابھی تک اس کا اردو ترجمہ نہیں ہوا کہ عوام تک پہنچ سکے۔ حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ اور ان کے پانچ اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے، مگر جنرل یحییٰ پر کبھی مقدمہ نہ چلایا جاسکا۔ وہ عزت کے ساتھ جئے اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ اس کی وجہ کیا تھی، یہ بھی پڑھ لیجیے۔ آصف جیلانی صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں:مجھے 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو سے لندن میں آخری ملاقات یاد آرہی ہے جب وہ برطانیہ کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ بھٹو صاحب سے میری اُس زمانے سے ملاقات تھی جب ابھی وہ سیاست میں نہیں آئے تھے اور برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہوکر انہوں نے کراچی میں مشہور وکیل رام چندانی ڈنگومل کے چیمبرز سے منسلک ہوکر وکالت شروع کی تھی۔ لندن کی یہ خاصی طویل ملاقات تھی۔ شرط اُن کی یہ تھی کہ اس کے بارے میں اُن کے جیتے جی ایک لفظ بھی باہر نہیں آئے گا۔ وہ نہ جانے کیوں ماضی کی یادوں کو بار بار کرید رہے تھے۔ مجھے بھٹو صاحب کے جاگیردارانہ انداز کا بخوبی احساس تھا کہ وہ اپنی کوئی مخالفت اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے عادی نہیں تھے۔ مجھے اُس رات اُن کے نہایت سہل موڈ سے ہمت ہوئی اور دوسرے امور پر بے تکلف اور کڑے سوالات کے آخر میں یہ پوچھا کہ انہوں نے 71ء کی جنگ میں فوج کی شکست پر فوجی حکمران یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟ تھوڑی دیر مجھے گھورنے کے بعد انہوں نے کہا: سچ بات یہ ہے کہ مجھ سے امریکیوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ میں یحییٰ خان کو ہاتھ نہ لگائوں کیوںکہ انہوں نے چین سے تعلقات کی استواری میں اہم رول ادا کیا ہے اور امریکی ان کا احسان مانتے ہیں۔ میں اس جواب پر ہکا بکا رہ گیا کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کا صدر امریکہ کے سامنے اس قدر بے بس اور بے کس ہے! واپسی پر میں سوچتا آیا کہ دراصل خود بھٹو صاحب بھی ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ یحییٰ خان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلے، کیوںکہ بھٹو صاحب بھی اس مقدمے میں اپنے رول کے بارے میں جواب طلبی سے نہ بچ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 71ء کی جنگ کے بارے میں حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو انہوں نے جیتے جی ہوا نہیں لگنے دی تھی۔‘‘ علامہ محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح اور سید ابوالاعلی مودودی جن کوشش اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے جو ملک بنا وہ دو ٹکڑے ہوگیا آج ان کی قبروں سے یہ فریاد آرہی ہے کہ آدھا ملک ہم کو گورا نہیں جسے شاعر نے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
کیا افسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
ڈھر بھی دو ہوگئے در بھی ہوگئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button