ColumnMazhar Ch

مشرقی پاکستان سے بلوچستان تک .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

قیام پاکستان کے24سال بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی مسلمانوں ،بلخصوص پاکستانی قوم کے لیے ایک عظیم سانحے سے کم نہ تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں سقوط بغداد،سقوط سپین اورسقوط دہلی کے بعد سقوط ڈھاکہ چوتھا بڑا سانحہ جبکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا بڑا ناقابل فراموش اور عبرت انگیز سانحہ تھا۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ کسی وقتی یا جذباتی سبب کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی ایک فرد یا واقعے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی ممکن بنائی بلکہ اس کے پیچھے دو دہائیوں سے زائد وہ سیاسی ومعاشی استحصال کارفرما تھا جو کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے عوامی نمائندوں اور عوام کے ساتھ روا رکھا۔گذشتہ ماہ ریٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف جنرل باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو سیاسی ناکامی قرار دیا تھا۔اس میں کوئی شک کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کی بے جا ضد اور غیر لچک دار بیانیوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس وقت باوردی حکمران سیاست میں تھے۔ہم چاہیں بھی تو اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ 1958سے لے کر 1971تک حکمرانی براہ راست فوج کے پاس تھی۔اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بنے تو انہوں نے سب سے پہلے جنرل یحییٰ خان سمیت کئی سنیئر جنرلز کو برطرف کیا ، اس کے علاوہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کرتے ہوئے قومی نشریاتی خطاب میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا۔
اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو بنگالیوں نے ہم سے الگ ہونے کے لیے ضرورت سے بہت زیادہ وقت لے لیا ورنہ قیام پاکستان کے فوری بعد سے جس طرح سے بنگالیوں کا سیاسی و معاشی استحصال کیا گیا،ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید دس سال بھی نہ نکالتا۔ایوب خان کے دور میں33بڑے سیاسی و انتظامی عہدوں پر مغربی پاکستانی فائز تھے، صرف اسپیکر کا عہدہ ایک بنگالی کے پاس تھا اور اس کی وجہ بھی دستوری تھی۔دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب محض سیاسی یا فوجی ناکامی تک محدود نہیں بل کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب تاریخی بھی ہیں، دستوری بھی ہیں، معاشی بھی ہیں،سماجی بھی ہیں، انتظامی بھی ہیں ،جغرافیائی بھی ہیں،سیاسی بھی ہیں، فوجی بھی ہیں،قومی بھی ہیں اور بین الااقوامی بھی ہیں۔
قوموں کی زندگی میںالمیے اورسانحات رونما ہوتے ہی رہتے ہیںلیکن زندہ قومیںاپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھ کرآئندہ کے لیے ایسے کسی المیے یاسانحے کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے سانحے کی تلافی اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب اس سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل میں ایسے کسی سانحے کے امکانات کو یکسر ختم کر دیا جائے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ریاست نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کر کے مشرقی پاکستان جیسے سانحے کو روکنے کا کسی حد تک سیاسی و انتظامی بندوبست کیا ہے لیکن اس کے باوجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی و معاشی محرومیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں۔ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان سے اٹھنے والی علیحدگی کی آوازوں پر بھی "بھارتی سازش”کا لیبل حقیقت سے کہیں زیادہ بڑا کر کے لگادیا گیا ہے۔ آج ہمارے دائیں بازو کے دانش ور اور تجزیہ نگار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر چھ نکات پر لاہور کانفرنس میں ہی غور کر لیا جاتا تو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ معاملات طے کرنا نسبتا آسان ہو جاتا۔آج ہم یہ تو تسلیم کر رہے ہیں کہ چھ نکات کو بری طرح نظر انداز کرنے سے معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل گئے لیکن بلوچستان کی سیاسی ومعاشی محرومیاں اوربلوچوں کے مطالبات کو ہم ابھی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
ویسے تو بلوچستان میں طاقت کا استعمال شروع دن سے ہی کسی نہ کسی حد تک ہوتا رہا ہے لیکن المیہ یہ رہا کہ ذوالفقار بھٹو جیسے عوامی و سیاسی رہنما کے دور میں بھی بلوچوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ بلوچوں کے مطابق 1972سے قبل ان کی مزاحمت روایتی اور قبائلی نوعیت کی تھی لیکن ذوالفقار بھٹو کے دور کے مظالم سے یہ قومی شکل اختیار کر گئی۔کوئی شک نہیں کہ چند برسوں کی تکلیف سہنے کے بعد بلوچ اس ساری حق تلفی کو بھول کر قومی دھارے میں شریک ہو گئے لیکن ارباب اقتدار نے آنے والی دو دہائیوں میں بھی بلوچستان کی سیاسی ومعاشی محرومیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کیں۔ پرویز مشرف دور کی مرکزی حکومت کے ظلم و جبر کے نتیجے میں بلوچستان میں علیحدگی کے رجحانات کو ملنے والی تقویت ابھی تک کم ہونے میں نہیں آ رہی۔
مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان ایشو میں غیر ملکی مداخلت خاص طور پر بھارتی کردار اپنی جگہ حقیقت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی طرح ہم بلوچستان معاملے کا سارا نزلہ بھارت پر ڈال کر اپنی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور غلط حکمت عملیوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔حالیہ دنوں میں بلوچستان کے سماجی وسیاسی المیوں پر معروف ترقی پسند ادیب نعیم بیگ کی تصنیف’’خواب انگارے‘‘منظر عام پر آئی ہے جس میں بلوچوں اور ریاست پاکستان کے درمیان جاری کفلیکٹ پر بہت سلجھے ہوئے انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ فاضل مصنف کے مطابق ابھی بھی بلوچستان کا ایک بڑا بلوچ دانش ور طبقہ علیحدگی پسندی کی بجائے سیاسی و پارلیمانی حل کا خواہاں ہے۔ گوادر میں حق دوتحریک کے تحت بار بار ہونے والے مظاہرے اور دھرنے تشویش ناک ہیں۔ ہمیں گوادر میں مقامی افراد کو ماہی گیری سمیت دیگرسہولیات فراہم کرنے کے مطالبات کو بغاوت نہیں سمجھنا چاہیے۔ریکوڈک پر ہونے والی قانون سازی کو جے یو آئی اور باپ نے اٹھارویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔بلوچستان کی سیاسی قیادت کا اصرار ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچستان حکومت اور مقامی افراد کا بنتا ہے اور یہ کسی بھی طرح غلط نہیں۔اسٹبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کے اعلان کے بعدضرورت اس امر کی ہے کہ گوادر اور ریکوڈک سمیت بلوچستان کے تمام مسائل کا فیصلہ سیاسی قوتیں بلوچستان کی اہم سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کریں۔آنے والے دنوں اور سالوں میں بلوچستان کے مسائل بلوچستان کے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر حل کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں تو سمجھا جائے گا کہ ریاست نے سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھ ہے ۔ معاملات اس کے برعکس چلتے رہے تو بلوچوں اور ریاست کے درمیان جاری کنفلکٹ مزید گہری اور شدید ہونے کے خدشات کو مسترد نہیں کیا جا سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button