ColumnImtiaz Aasi

ریکوڈک معاہدہ اور تحفظات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

سپریم کورٹ سے ریکوڈک منصوبے کوقانونی طور پر درست قرار دینے کے بعد عشروں سے تعطل کا شکار رہنے والے اس عظیم الشان منصوبے پر کام کے آغازکی امید کے ساتھ اتحادی جماعتوں کے تحفظات موجود ہیں۔بی این پی اور جے یوآئی کے وزراء نے معاہدے پر تحفظات کے پیش نظر کابینہ اجلاس کا بھی بائیکاٹ کرتے ہوئے معاہدے کواٹھارویں ترمیم کے خلاف قرار دیا۔ 1992میںسپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے احکامات پر منصوبے پر کام روک دیا گیا تھاحالانکہ منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کئی سو مربع میل علاقے پر بور کر چکی تھی۔ریکوڈک منصوبہ اپنے آغا ز سے اب تک کئی نشیب وفراز سے گذر چکا ہے۔ ریکوڈک پر کام رک جانے کے بعد کمپنی حصول انصاف کیلئے بین الاقوامی عدالت میں چلی گئی جس کے بعد معاہدے کی خلاف ورزی پر حکومت پاکستان پر عدالت نے 10ارب ڈالر جرمانہ عائد کر دیا تھا۔ پاکستان کو اس کیس کی پیروی کرنے پر وکلاء کو لاکھوں پائونڈ فیس ادا کرنا پڑی۔اس فیصلے کے خلاف پاکستان کی اپیل کا ابھی فیصلہ ہونا تھا کہ عمران خان کے دور میں اسی کمپنی کونئی شرائط پر یہ منصوبہ دے دیا گیا ۔ ریکوڈک کے چیف ایگزیکٹو نے دورہ پاکستان کے موقع پر معاہدے کی سپریم کورٹ سے منظوری کی شرط رکھ دی جس کا مقصد مستقبل میں منصوبے پر ہونے والے کام پر کسی قسم کی رکاوٹ سے بچنا تھا۔تحصیل نوکنڈی میں واقع ریکوڈک میں نہ تو ابھی تک کوئی سٹرک ہے نہ وہاں کے رہنے والوں کو پینے کا پانی دستیاب ہے اور نہ کوئی تعلیمی ادارہ ہے۔کئی سال پہلے منصوبے پرکام مکمل ہوجاتا توعالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں کمی کے روشن امکا نات تھے ۔بدقسمتی سے بلوچستا ن کو ترقی سے محروم رکھنے میں وہاں کے وڈیروں اور سرداروں کابھی عمل دخل رہاہے۔قیام پاکستان سے پہلے بلوچستان میں چار بڑی ریاستیں لسبیلہ، قلات، مکران اور ریاست خاران تھیں جو متحدہ ہندوستان کی بجائے براہ راست برطانونی حکومت کے کنٹرو ل میں تھیں۔انہی ریاستوں کے سرداروں اور وڈیروں کی آل اولاد کے پاس صوبے کی حکمرانی رہنے سے بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ رہاگیا۔ یہ تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں گوادر جیسے منصوبے پر کام شروع ہوا ۔کوسٹل ہائی وے اور سکول وکالجز بنائے گئے ورنہ وہاں کے وڈیروں اور سرداروں کے اولادیں ابھی تک پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایچی سن اور گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے حصول کیلئے آتی ہیں۔سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ کرنے سے قبل وفاقی حکومت سے جو سوالات کئے ان میں پہلا سوال آیا نیا معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013کے فیصلے سے متصادم تو نہیں ہے یا حکومت کو کسی ایسے معاہدے سے روکتا تو نہیںہے۔نئے معاہدے سے مجوزہ فارن انوسٹمنٹ پروٹیکشن اینڈ پروموشن بل 2022 کا نفاذ آئین اور قانون سے متصادم تو نہیں ہوگا۔بیرک کمپنی کی طرف سے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایاگیا کہ مزدورں کے حقوق کا پورا خیال رکھا جائے گااور اس منصوبے سے علاقے میں سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی ساتھ اسکل منصوبوں کا بھی آغاز کیا جائے گا۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے اس وقت دنیا میںچلی، آسٹریلیا اور افریقی کمپنیاں ریکوڈک جیسے کئی منصوبوںپرکام کر رہی ہیںاور بین الاقوامی طور پر انہی کمپنیوں کی عالمی منڈی میں اجارہ داری ہے۔ ریکوڈک منصوبے پر کام کی تکمیل سے عالمی سطح پر گولڈ اور کاپر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات کے پیش نظر یہ منصوبہ کسی نہ کسی حوالے سے تعطل کا شکار ہے، البتہ معاہدہ کرتے وقت بلوچستان حکومت کی غلطیوں سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔اسی کمپنی سے معاہدہ کرتے وقت زمین کی رائلٹی کو منجمد رکھنے کافیصلہ کیا گیا لیکن بعد ازاں بلوچستان حکومت نے کمپنی سے لیز کی رائلٹی کی رقم میں بتدریج اضافے کا مطالبہ کر دیا ۔معاہدہ کے مطابق کمپنی نے ریکوڈک سے نکلنے والے محلول کواپنے ملک میں لے جا کر پراسیس کرنا تھا معاہدہ کرنے کے بعد بلوچستان حکومت نے ریکوڈ ک سے نکلنے والے محلول کو بلوچستان میں پراسیس کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔اگرچہ نئے معاہدے کی توثیق بلوچستان اسمبلی نے بھی کی ہے اس کے باوجود بلوچستان حکومت اور وہاں کے رہنے والوںکے تحفظات ہیں ۔ان کا موقف ہے آئین کی رو سے معدنی وسائل صوبوں کے ملکیت کے باوجود وفاق ریکوڈک کے منصوبے سے آمدن کا 25 فیصدکیوں حاصل کرے گا۔نئے معاہدے میں ریکوڈک سے 50فیصد کمپنی ،25 فیصد وفاقی حکومت اور 25 فیصد بلوچستان کو ملے گا۔ریکوڈک سے نکلنے والے مواد کے پراسیس کا جہاں تک معاملہ ہے ابھی تک اس بارے کوئی خبر سامنے نہیں آئی ۔آیا بلوچستان کی حکومت اپنے اس مطالبے پر قائم ہے یااس میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔اسی طرح رائلٹی سے متعلق کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے وہ منجمد رکھی جائے گی یا اس میں بتدریج اضافہ ہوگا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ریکوڈک سے متعلق جزوی طور پر فیصلہ سنایا ہے جبکہ بینچ کے ایک رکن جسٹس یحییٰ عمر آفریدی نے اپنی رائے کو فل بینچ کے فیصلہ سے مشروط کر دیا ہے۔ریکوڈک پر کام کرنے والے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کے خلاف مبینہ طور پر بے قاعدگیوں کا ایک ریفرنس عدالت میں زیر سماعت تھا جس کے ملزمان ضمانتوں پر تھے۔ان ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپنی ضمانتوں کی کنفرمیشن کیلئے رجوع کیا تو سپریم کورٹ نے ملزمان کو احتساب عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔موجودہ حکومت کے دور میں نیب قوانین میں ترامیم کے بعد ہوسکتا ہے ریکوڈک کیس کے ملزمان کے خلاف مقدمات ختم ہو گئے ہوں۔سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے سے اس بات کی قوی امید ہے کہ ریکوڈک پر بہت جلد کام کاآغاز ہو جائے گا۔پرانے معاہدے کے تحت کمپنی نے ریکوڈک سے نکلنے والے محلول کو پائپ لائنوں کے ذریعے گوادر تک پہنچانے کے بعد بحری جہاز سے اپنے ملک لے جاناتھا۔ریکوڈک پرکام کے شروع ہونے سے بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔نوکنڈی اور گردونواح کے علاقوںمیں سڑکوں کی تعمیر سے وہاں کے رہنے والوں کوذرائع آمدورفت میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ریکوڈک بارے سپریم کورٹ سے فیصلے کے بعدمستقبل میں اس منصوبے پر کام رکنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے اور بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کاآغاز ہوگا۔اس کے ساتھ بی این پی جے یو آئی ، اے این پی اور نیشنل پارٹی کے اس بارے تحفظات دور نہیں ہوں گے اس وقت تک ریکوڈک معاہدہ متنازعہ رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button