ColumnNasir Sherazi

کِسی روز کردکھائو بھی ! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گیا مگر پھانسی چڑھنے سے پہلے رویا نہیں تھا۔ عراق کے صدر صدام حسین کی پھانسی تو ابھی کل کی بات ہے۔ اُسے پھانسی پر چڑھایاگیا وہ بھی نہیں رویا۔ اصلی مرد آہن کو پھانسی چڑھادیں ،اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں وہ روتا نہیں ہنستا مسکراتا نظر آتا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے زور پر تحریک انصاف کے اتحادی بہت نیک چلن اور بھلے مانس سیاست دان ہیں، ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران رو پڑے، انہیں روتا دیکھ کر جانے کتنے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوں گے، مجھے ان کے رونے دھونے پر تشویش ہے۔ ان کا مقام سیاست میں وہی ہے جو فلم میں ماضی کے سپرسٹار علائو الدین کا تھا۔ وہ سیریس اداکاری کے ساتھ ساتھ کامیڈی بھی کرلیتے تھے، انہوں نے المیہ اداکاری بھی کی۔ خصوصاً ایک فلم میں وہ جب اپنے مقابل اداکارہ نبیلہ سے پوچھتے ہیں، کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کون لایا ہے یہ جھمکے، اس فلم میں جذباتی و المیہ اداکاری کرتے فن کی بلندیوں پر نظر آئے، تب سے اب تک جہاں جہاں بھی کچھ انہونی کچھ نئی کچھ قیمتی چیزیں نظر آئیں تو پوچھا جاتا ہے کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کون لایا ہے یہ جھمکے۔
شیخ رشید صاحب ذومعنی بات کرکے وقت آنے پر اپنی مرضی کا مطلب نکالنے کاہنر جانتے ہیں۔ انہوں نے اس انٹرویو میں رادھا کے رقص کے لیے نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں جو ہونا ہے 15سے 30دسمبر تک ہوجائے گا۔ وہ ہمیشہ اپنا تعلق جی ایچ کیو سے جوڑ کر خوشی محسوس کرتے نظر آئے، بعد ازاں انہوں نے اپنے مخالفین کو اسی ادارے کے چارنمبر گیٹ کی پیداوار قرار دیا، آج وہ کہتے ہیں تمام سیاست دان اسی گیٹ کے راستے سیاست میں آئے، ان کی بات میں خاصا وزن ہے لیکن اس موقعہ پر آنسو بہانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، کہیں خدا نخواستہ ان کے لیے یہ گیٹ ہمیشہ کے لیے بند تو نہیں ہوگیا؟ پی ڈی ایم کی وفاق میں حکومت، صوبائی اسمبلیوں کوتوڑنے کی دھمکیوںکو اہمیت نہیں دے رہی، ان کا کہنا ہے ہر قسم کے چہرے کے لیے مختلف قسم کی چپیڑ تیار ہے۔
دوسری طرف عمران خان اب بھی پُرامید ہیں کہ حکومت کو ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑیں گے، ان کی ممکنہ نااہلی کے حوالے سے سوال پر وہ کہتے ہیں اگر میں نااہل ہو بھی گیا تو اس سے کیا فرق پڑے گا، میرے نااہل ہونے کے بعد میرا ووٹ مجھے یعنی میری پارٹی کوہی ملے گا، وہ کسی اور طرف نہیں جائے گا۔
وہ اپنے تئیں بعض اداروں کی غیرت جگانے کے لیے سرگرم ہیں، ہر آنےوالے دن وہ اسی حوالے سے بیان جاری کرتے ہیں، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دراصل غیر جاگنے پر ہی ان کی حکومت کا تختہ ہوا ہے، غیر جگانے کے مشن پر اب تو انہوں نے خدا کے واسطے بھی ڈالنے شروع کردیئے ہیں، وہ اپنے زمانہ اقتدار میں امر بالمعروف کا بہت تذکرہ کرتے تھے، آج یہ ذکر دوچند ہوگیا ہے، انہوںنے اپنی سیاسی زندگی میں قریباً سو مرتبہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے کرتے کے حوالے سے کیے گئے سوال کی بات کی لیکن آج اُن سے گھڑی کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوںنے فرمایا میری گھڑی میری مرضی، میں اسے فروخت کروں یا اس کا کچھ بھی کروں وہ آج یہ بھی فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ قوم ان کا یاد کرایاگیا سبق ازبر کیے بیٹھی ہے کہ پہلی قومیں اس لیے برباد ہوگئیں کہ انکے زمانے میں امیر کے لیے ایک قانون اورغریب کے لیے دوسرا قانون ہوتا تھا لیکن خان صاحب کے اقوال زریں میں سب سے خوبصورت بات، وہ کہہ چکے ہیں آئین میں 62-63کیشق کا رہنا بہت ضروری ہے خواہ اس کی زد میں وہ خود ہی کیوں نہ آجائیں۔ وہ اس شق کی زد میں آچکے ہیں، امید ہے حتمی فیصلہ آنے کے بعد وہ اسے امریکہ یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سازش نہیں کہیں گے۔
اہم ترین ادارہ واضح کرچکا کہ کسی سازشی منصوبے کاحصہ نہیں بنے گا، اسمبلیاں توڑنے کے فوائد اور نقصانات کاجائزہ لینے کے لیے تراتر سے اجلاس ہورہے ، گذشتہ دنوں پنجاب کے حاضر سروس وزیراعلیٰ نے سابق وزیراعظم پاکستان سے ایک اہم ملاقات کی جس میں انہوںنے اپنے تجربے، فہم و فراست کےمطابق رائے دی کہ صوبائی حکومتوں کو فوراً توڑنا، اسمبلیوں سے باہر آجانے کےفوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ ایک سوشل میڈیائی دانشور کی طرف سے سلیس ترجمے کے مطابق اس وقت خان صاحب کی سکیورٹی پر مامور 571پولیس اہلکار موجود ہیں۔ پنجاب اسمبلی توڑنے کے بعد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ان میں سے 569 اہلکار واپس چلے جائیں گے جبکہ باقی 2 اہلکار انہیں گرفتار کرکے موٹر سائیکل پر بٹھاکر قریبی تھانے پہنچادیں گے۔
تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پہلے پنجاب اسمبلی تحلیل کریں گے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی صورتحال کا جائزہ لیکر توڑی جائے گی، اس حکمت کا مقصد فقط یہ ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ایک جائے پناہ موجود رہے۔ پس اگر پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرلیاگیا تو اس وقت عمران خان لاہورنہیں پشاور ہوں گے اور اگر پی ڈی ایم نے اس کا متبادل ڈھونڈ کر پنجاب اسمبلی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا تو پھر صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نہیں توڑی جائے گی۔ سیاست دانوں کے وژن کا امتحان ہوا ہی چاہتا ہے۔
دودھ کے جلے چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے دودھ سے جلنے کا اپنا ہی مزہ ہے، اسی طرح نقصان اٹھاکر سبق حاصل کرنے میں اک جدہ لطف ہے، پس اسی لطف کو حاصل کرنے کے لیے سوچا جارہا ہے کہ پنجاب اسمبلی توڑ کر سیاسی چسکا حاصل کیاجائے۔
میدان سیاست میں کوئی شیریں موجود نہیں، نہ ہی کوئی فرہاد ہے، جسے دودھ کی نہر نکالنے کا حکم ملے اور وہ سرپھینک کر کدال چلانے میں مصروف ہو جائے، پس یہ بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کھودنے والے پورا پہاڑ کھود ڈالیں تو آخر میں فقط چوہا برآمد ہو۔
صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے پر کمر بستہ، حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کاشوق رکھنے والے قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔
سیاسی نابالغوں نے نعرہ تو یہ بھی لگایا ہے کہ ہم دیکھ لیں گے کون ہماراکیا اکھاڑ سکتا ہے، تو عرض ہے میدان جنگ سے سپاہ کے پائوں اکھڑ جائیں تو سب کچھ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے اور جو ایک مرتبہ جڑ سے اکھڑ جائے اسے پھر دوبارہ نہیں لگایا جاسکتا، دوبارہ لگابھی دیں تو سرسبز نہیں ہوتا، دیکھتے ہی دیکھتے مرجھا جاتا ہے، سیاسی سپاہ کے پائوں اکھڑ چکے ہیں ایسا نہ ہوتا تو رادھا کے رقص کی درجن بھرتاریخیں کیوں دی جاتیں۔ میدان جنگ کا پہلا اور آخری اصول جو فتح سے ہمکنار کرتا ہے، خاموشی سے تیاری، اچانک حملہ۔ مہینوں کہانیاں نہیں سنائی جاتیں۔ پہلے اعلان پھر مشاورت نہیں ہوتی اب تو یوں لگتا ہے جیسے درخواست کی جارہی ہو میں کچھ کرنا چاہتا ہوں مجھے روکو، ایک شعرپیش خدمت ہے۔
بڑھ چلا ہے زمانے میں خودکشی کا چلن
کہنے والو کسی روز کردکھائو بھی

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button