Editorial

صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کی جنگ

 

پاکستان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے درمیان دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے حکمت عملی بنانے کے لیے اجلاس بلالئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت میں بھی اِس معاملے پر مسلسل مشاورت جاری ہے تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے واضح الفاظ میںکہاہےکہ عام انتخابات آئندہ سال اگست کے بعد یعنی وقت ہوں گے،یعنی قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے گی۔ وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے ، جومعاشی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔یہ حکومت ایک آئینی عمل کے ذریعے اقتدارمیں آئی اور اسے پاکستانی عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔موجودہ قومی اسمبلی کی مدت اگست 2023 میں ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے گا جو انتخابات کرائے گی۔دوسری طرف ذرائع ابلاغ دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد خیبر پختونخوا اورپنجاب اسمبلی تحلیل کرنے پر مشاورت کا عمل مکمل کرلیا ہے البتہ اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان ، دن اور وقت دو مختلف اوقات میں اعلان کئے جائیں گے۔ پس ملک میں سیاسی بحران کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا اور پہلے سے وینٹی لیٹر پر موجود معیشت پر انتخابات کے اخراجات جو اربوں روپے میں ہوں گے، کا بوجھ پڑے گا، چونکہ وفاق میں موجود اتحادی جماعتوں کی حکومت کا واضح موقف ہے کہ وہ آئینی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں لہٰذا وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے اِس لیے وہ عمران خان کا جلد عام انتخابات کا مطالبہ یکسر مسترد کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روالپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے اسلام آباد نہ جانے کا اعلان کرکے ریاست کو بڑے خطرے سے دوچار ہونے سے بچالیا ہے لیکن دوسری طرف صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرکے مرکز میں اتحادی حکومت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، چونکہ تحریک عدم اعتماد اور گورنر راج جیسے آپشن اسمبلی قوانین کے مطابق اتحادی حکومت استعمال کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اسمبلیاں تحلیل ہونا یقینی نظر آرہا ہے، پس اِس کے بعد کیا ہوگا یہ سوال حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بلکہ اراکین صوبائی اسمبلی بھی اٹھارہے ہیں۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کے انعقاد جبکہ اتحادی حکومت مدت پوری کرنے پر بضد ہے لہٰذا ملک گیر سطح پر جلسے جلوس، لانگ مارچ اور اب صوبائی اسمبلیوں کی
تحلیل بھی اِسی کھیل کا حصہ ہے لہٰذا وطن عزیز اِس وقت سیاسی کھینچاتانی اور سیاسی قوتوں کے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے دائو پیچ آزمانے کی وجہ سے مکمل طور پر سیاسی بنا ہوا ہے لیکن دوسری طرف ڈیفالٹ کے خطرات اور مہنگائی اور بے یقینی سی صورتحال بڑے چیلنجز کے طور پر نمودار ہوچکے ہیں جن کی طرف بلاشبہ دلجمعی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر وہ ساری توجہ سیاست اورصرف سیاست پر مرکوز ہے۔ بلاشبہ وفاق میں حکومت کی تبدیلی ایک آئینی اقدام کے ذریعے عمل میں آئی لیکن اگر تحریک انصاف اقتدار کے پانچ سال پورے کرلیتی تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ نہ تو عمران خان اسمبلی سے باہر آکر زیادہ خطرناک ہوتے اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک بے چینی کا شکار ہوتا، مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام تر الزامات اور سیاسی کھینچاتانی کے باوجود پانچ پانچ سال حکومت کی اور آئینی مدت پوری کرکے انتخابات میں گئے، پس یہی موقعہ پی ٹی آئی کو بھی دیا جانا چاہیے تھا تاکہ عام انتخابات میں ووٹرز کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے مگر جس طرح اراکین اسمبلی کے جوڑ تو ہوئے، تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، اِس کو رجیم چینج کا نام دیاگیا اور پھر سڑکوں پر عوام کو کئی ماہ سے منصف بنایاگیا یہ سب ملک کو بظاہر آگے لیجانے کی بجائے پیچھے لے جارہا ہے یا کم ازکم وہیں پر کھڑا رکھے ہوئے ہے۔ کیونکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار تو دور مقامی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں، ڈالر بالآخر ہلکان ہوکر خود ہی ایک قیمت کے آس پاس ہے، نئے وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی بظاہر ڈالر کو قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے اِس کے برعکس انہیں اپنی ہی پارٹی کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی تنقید کا سامنا بھی کرناپڑ رہا ہے،چونکہ اب تک عمران خان اور اتحادی حکومت کے درمیان ثالثی کی کوئی بھی کوشش رنگ نہیں لاسکی لہٰذا مزیدکوشش کا بھی کوئی امکان نظر آرہا ، یوں کہہ لیجئے کہ ایک دنگل ہے جس میں کوئی بھی ریفری نہیں اور دونوں کھلاڑی تھک کر ہلکان ہورہے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کی اہم تقرریاں وزیراعظم پاکستان نے اپنا آئینی حق استعمال کرکے ، کرلی ہیں پھر کئی ماہ سے معاشی اقدامات بھی کئے جارہے ہیں لہٰذا ملک و قوم کو اِس بے یقینی کی فضا سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں، ملک ہے تو ہم اور ہماری پہچان ہے، سیاسی ہیجان نے عوام کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے اور عوام جلد ازجلد سیاست دانوں کی توجہ چاہتے ہیں تاکہ اِنہیں تاریخ کی بلند ترین مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر چیلنجز سے چھٹکارا دلاسکیں لیکن ایک کے بعد دوسرا سیاسی حربہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ عوامی کے اضطراب اوربے چینی کو اہمیت دینے کی بجائے سیاسی و انفرادی مقاصد کو ترجیح دی جارہی ہےاور باوجود اِس کے کہ لوگوں کے رویے میں تلخی اور برداشت تیزی سے ختم ہورہی ہے پھر بھی حالات کی نزاکت کو قطعی نہیں سمجھا جارہا بلکہ انہیں ایندھن ہی سمجھا جارہاہے جو بلاشبہ سیاسی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ملک و قوم کواِس بے یقینی کی صورتحال سے باہر نکالنے کےلیے وطن دوست شخصیات کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کےلیے فوراً سامنے آنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات مزید تلخی اور انتشار کی جانب بڑھیں اور پھر سبھی بلا امتیاز اِس کے نتائج بھگتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button