ColumnNasir Naqvi

موسم بدلا،آپ بھی بدلیں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

حضرت انسان کی روح انتہائی بے چین واقع ہوئی ہے اسے کسی حال میں چین نہیں، مالک کائنات نے ہمیں سردی گرمی ہر موسم سے نوازا ہے پھر بھی ہماری بے چین روح گرمیوں میں جلد از جلد سردی کی تمنائی بنی رہتی ہے اور جب موسم کروٹ بدل کر سردہو جاتا ہے تو پھر اسے ہر پل گرمی یاد آتی ہے ہے اس موسمی نعمت کا ہم نے کبھی اندازہ کیا ہی نہیں کیونکہ ہماری اکثریت کنویں کی مینڈک ہے دھرتی اور اپنے گھر کے جھمیلوں سے سے نکلےگا تو کچھ دیکھےگا اسے کون بتائے کہ پورا یورپ گرمی کو ترستا ہے ہم گورے رنگ پر دل و جان سے فدا ہوتے نہیں تھکتے اور گورے گوریاں سورج دیکھتے ہی گھروں سے نہیں کپڑوں سے بھی باہر آجاتے ہیں اس لیے کہ ا نہیں بات کی آگاہی ہے کہ انسانی جسم کو سورج کی تپش کی ضرورت ہے اس سے جسمانی مسام کھلتے ہیں سردی اور برف کے مارے جسموں کو وٹامن ڈی کی کمی پوری ہوتی ہے ویسے بھی راز کی بات یہ ہے کہ گورے گوریاں اپنے گورے پن سے بھی بیزار ہیں وہ دھوپ میں پورا سیزن لیٹ کر اپنے جسم کے گورے پن کو بھی کم کرتے ہیں لیکن انہیں خواہش کے مطابق اکثر سورج ملتا ہی نہیں پھر بھی وہ سورج کی آنکھ مچولی سے محظوظ ہوتے ہیں چند منٹ میں ناروے کا اندازہ کرنے کیلئے آنکھیں بند کریں جہاں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن رہتا ہے اب آنکھیں کھول کر ذہن دوڑائے وہ زندگی کیسی ہوگی؟ وہاںایک پتھر پر یہ بھی لکھا ہے-End of the World
چھوڑیں میں نے کیسی کہانی چھیڑ دی ہم تو ترقی پذیر غریب ملک کے باسی ہیں اور باتیں کر رہے ہیں یورپ اور ناروے کی ، ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے ایک بڑی تعداد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ان سے گرمی اور سردی کے معاملات پر بحث بھی بے معنی ہے کیونکہ سبی اورمچھ کے گرم ترین موسم میں رہنے والوں کو ملکہ کوہسار مری کی کیا خبر اور اسی طرح شمالی علاقہ جات میں بسنے والے کیا جانے پنجاب اور بلوچستان میں
کتنی گرمی ہوتی ہے ہمارے خاندانوں کے خاندان ایسے ہیں جو جہاں پیدا ہوئے اسی شہر اور علاقے میں مر جاتے ہیں انہیں کیا پتا روشنیوں کا شہر کراچی کسے کہتے ہیں اور زندہ دلوں کا شہر لاہور کس جگہ کا نام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔کھانے شمالی علاقہ جات، آزادکشمیر ،گلگت بلوچستان سب جگہ مزے دار کھائے جاتے ہیں لیکن وہاں پھجا کے سری پائے ،وارث کی نہاری ،گوالمنڈی کا ہریسہ اور دوسرے کھانے کب ملتے ہوں گےبہر کیف گرمی کے مقابلے میں سرد موسم خوش خوراک لوگوں کیلئے انتہائی اہم ہوتا ہے ویسے بھی ماہر طیب گرمیوں کے حوالے سے کم خوراک کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ بسا اوقات گرمیوں کا کھانا انسانی زندگی کے لئےعذاب بھی بن جاتا ہے اس موسم کی سب سے خطرناک بیماری ہیضہ ہے جس میں پیٹ کی خرابی اور الٹی انسانی جسم
میں پانی کی کمی بھی پیدا کر کے جان لے لیتی ہے یہ بیماری بچوں اور بوڑھوں کے لیے وہ بال جان بن جاتی ہے۔
پہلی بارش نے ملک کا موسم بدل دیا پہاڑوں پر برفباری بھی شروع ہو گئی لیکن ابھی باقاعدہ بارشوں کی رم جھم کا آغاز نہیں ہوا اس لیے سردی سے ڈرنے کیلئے کوئی تیار نہیں لاہوریے مختلف بیماریوں میں پھنسے ہوئے ہیں ڈینگی، زکام، کھانسی ،نزلہ اور بخار تحائف کی شکل میں تقسیم ہو رہے ہیں جبکہ کرونا بھی موجود ہے ہسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریض ہیں اس پر دشمن کرونا ابھی تک انسانی جانوں کا گلا گھونٹ رہا ہے ان تمام بیماریوں کا ایک ہی علاج ہے موسم بدلہ آپ بھی بدلیں ،سیانے کہتے ہیں آتی سردی جاتی سردی سے بچنا چاہیے ڈاکٹرز کا بھی یہی فرمان ہے کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے سردی میں قدرت نے بہت سے تحفے دیے ہیں مونگ پھیلیاں ، اخروٹ ،بادام، انجیر اور بہت کچھ کھائیں لیکن غلطی سے بھی چلغوزوں کا بھاؤ نہ پوچھئےگا ورنہ دل اور دماغ دونوں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اس لیے یہ رسک نہ لیں ، اللہ نے بہت کچھ دیا ہے اسے انجوائے کریں اور شکر بھی ادا کریں خوش رہنے کی کوشش نہ صرف خود کریں بلکہ دوسروں کی خوشی کا بھی باعث بنیں پھر دیکھیں زندگی کتنی حسینہے لیکن یہ کام اللہ کی دی ہوئی حدود میں رہ کر انجام دیں ورنہ نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے اور برا بھلا دوسروں کو کہہ کر نئی مشکلات پیدا کریں گے حالانکہ ہمیں تو اپنے وسائل میں رہ کر دوسروں یعنی خلق خدا کی بھلائی اور آسانیاں پیدا کرنے کا درس دیا گیا
ہے پھر بھی آدم زادے ہر وقت اپنی حدود اور ذاتوں
کی زنجیروں کو توڑنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ایک دوسرے سے تو لڑتے ہیں لیکن انہوں نےقدرت سے بھی جنگ شروع کر دی ہے اس بغاوت کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا پوری دنیا اس کوتاہی اور بے احتیاطی کے چنگل میں پھنس چکی ہے نظام قدرت نے برا منایا اور موسمی تبدیلی کا ایک نیا سونامی حضرت انسان کے گلے پڑ چکا ہے ترقی پذیر ممالک تو پریشان تھے ہی، اب ترقی یافتہ بھی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ انسانی زندگی بچانے کے لیے کیا کیا جائے آلودگی کےاس طوفان نے ہلا کر رکھ دیا کیونکہ موسم تبدیل ہوگئے اوردشمن بیماریوں نے سر اٹھا لیا صنعتی علاقوں میں دھواں دارایندھن استعمال کیا گیا فصلوں کی باقیات جلائی گئیں انسان دوست درختوں کا قتل عام کیا گیا اور ضرورت کے مطابق نئے درخت نہیں لگائے گئے ہمارے جیسوں نے حرص و ہوس میں صرف اپنے مفادات میں زرعی رقبے کو انفرادی مفادات میں بھیچ دیا لہذا اجتماعی مفادات کا گلا گھونٹ کر آباد کاری کے نام پر سوسائیٹیاں بن گئی زرعی رقبہ کم تو ہونا ہی تھا بے احتیاطی سے آلودگی کا سیلاب آگیاماضی میں بلین ٹری منصوبے سے مستقبل کی فکر کی گئی تو تعداد اور ضرورت کے مطابق شجرکاری کی ہی نہیں ،دوئم جتنے درخت لگائے گئے ان کی حفاظت نہیں کر سکے کہ ہمارے وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں
حقیقت یہی ہے اب یہ بہانے نہیں چلیں گے زمانے کی روایات کے مطابق ہمیں آپ کو بلکہ ہر خاص و عام کو انسانی جان بچانے اور نئی نسل یعنی اپنے مستقبل کے لیے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑے گا ورنہ موجودہ وسائل بھی ہڑپ ہو جائیں گے دنیا آگے نکل جائے گی اور ہم منہ تکتے رہ جائیں گے اس کا حل صرف ایک ہی ہے کہ علاقائی موسم کی تبدیلیوں کے ساتھ دنیا کے بدلتے موسموں کا جائزہ لے کر اپنے انداز زندگی کو بدلنا ہو گا صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور کراچی جیسے بڑے تجارتی شہر ہمیں میں خبردار کر رہے ہیں کہ آلودگی زہر قاتل ہے اس سے بچ سکتے ہو تو بچ جاؤورنہ یہ نسلوں کو بھی چین کی زندگی نہیں جینے دے گایقینااس سلسلے میں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سخت اور اہم فیصلے کر کے بڑے شہروں میں آلودگی سے نجات دلائیں لیکن ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ایسا کچھ نہ کریں جس سے آلودگی بڑھانے کا باعث بنیں ایسا بظاہر ممکن نہیں اس لیے کہ ہم لوگ پوری ذمہ داری سے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے عادی ہیں ہمیں اپنی آنکھ میں شہتیر دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی شخصیت میں کوئی خامی لیکن دوسروں کی آنکھ کا بال اور کسی غلطی یا کمی پر درگزر کرنے کیلئے تیار نہیں ، ہم اس مقام تک پہنچے ہی اسی لیے ہیں کہ ہم نے کبھی خود احتسابی نہیں کی، خوش فہمی میں سب اچھا کہتے ہوئے جائز ناجائز کرتے رہے جس نے روکنے کی کوشش کی اس پر بے جا تنقید سے جینا حرام کردیا لہذا ایک ایسا رویہ پیدا ہو گیا جس میں انفرادی خواہشات عروج حاصل کرگئیں اور اجتماعی مفادات پس پردہ چلے گئے حالات اور واقعات حضرت انسان کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں موسم بدلےتو لطف اندوز ضرور ہوں تاہم آنے والے کل کی فکر بھی کریں تاکہ سب ایک قوم کی حیثیت سے پھولے پھیلں ،نئی نسل کے مسائل میں میں اضافے کا باعث نہ بنیں کہ ان کی ترقی اور خوشحالی قربان ہو جائے اس لیے”مو سم بدلہ -تو آپ بھی بدلیں ” بالکل اسی طرح فکر مند ہوں جیسے بدلتے موسموں میں ہم اور آپ کھانے اور پہننے کے لئے فکر مند ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button