Ahmad NaveedColumn

زندگی اِک عجب پہیلی ہے ! .. احمد نوید

احمد نوید

 

توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے ، جس کا لفظی ترجمہ سٹور ہائوس کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں مغل حکمرانوں کے دو ر میں توشہ خانہ ایک ایسی جگہ تھی ، جہاں مغل شہزادے اُن تحائف کا ذخیرہ کرتے تھے جو اُنہیں اُن کے اپنے اجدا د اور مختلف راجے مہاراجائوں کی طرف سے اُن کے مان سمان کو مدنظر رکھ کر دئیے جاتے تھے ۔
برطانوی نوا ٓبادیاتی دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں کو سفارتی تحائف (ہتھیار ، زیورات ) قبول کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کے کچھ ملکوں میں توشہ خانہ کے حوالے سے یہ روایت بھی قائم تھی کہ سرکاری عہدیداروں کو جو تحائف ملتے تھے ، وہ توشہ خانہ یعنی سرکاری خزانے میں جمع کروا دئیے جاتے تھے اور بعد ازاں اُن اشیاء یا تحائف کو دوسرے حکمرانوں کے ساتھ تحائف کے تبادلے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔
مغل حکمرانوں کے دور میں قریباً ہر بڑے شہر کے قلعہ میں توشہ خانہ قائم تھا۔ مغل حکمرانوں ، سکھوں کے دور حکومت اور برطانوی راج میں اِن توشہ خانوں میں موجود تحائف کی بے مثال قیمتوں کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امرتسر میں قائم ہر مندر صاحب کے توشہ خانہ میں دو تاریخی نایاب چیزوں (زیورات سے مزین چھتری اور گر و گر نتھ صاحب کے اوپر لٹکا ہوا ہیرے سے جڑا ہوا کپڑا چانڈوا کی قیمت کئی سال پہلے دو سوکروڑ روپے سے زیادہ بتائی گئی تھی۔یہ دونوں تحائف نظام سلطنت حیدر آباد کی طرف سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو پیش کئے گئے تھے ۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں توشہ خانہ 1974میں قائم کیا گیا ۔ توشہ خانہ کا بینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک محکمہ ہے اور یہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر مختلف حکومتوں ، ریاستوں ، غیر ملکی معززین اور سربراہوں کی طرف سے حکمرانوں ، اراکین پارلیمنٹ ، بیورکریٹس اور حکام کو دئیے گئے قیمتی تحائف کا ذخیرہ ہوتا ہے ۔ ان تحائف میں بلٹ پروف کا روں سے لے کر مہنگی پینٹگز ، زیورات ، گھڑیوں ، قالینوں اور تلواروں سمیت مختلف قیمتی اشیاء اس میں شامل ہوتی ہیں ۔ گویہ تحائف عالمی سفارت کاری میں ایک انتہائی اہم عمل کی نمائندگی کرتے ہیں اور تحائف کے اس تبادلے کو ایک رواج کے طور پر بھی دیکھا جا تا ہے ۔ تاہم زیادہ تر جمہوری ریاستوں میں یہ تحائف سرکاری ملکیت تصور کیے جاتے ہیں ۔
پاکستان میں توشہ خانہ کی تاریخ تنازعہ کا شکار رہی ہے اور آج کل سابق وزیراعظم عمران خان اِن الزامات کی زد میں ہیں کہ ان کے دور حکومت میں توشہ خانہ میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ۔ اس کیس کے نتیجے میں وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بطور ایم این اے نا اہل بھی قرار دئیے گئے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان واحد شخصیت نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اُن سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری پربھی توشہ خانہ کے حوالے سے بے ضابطگیوں کے الزامات لگ چکے ہیں ۔
1880میں ملکہ وکٹوریہ نے امریکی صدر فورڈ بی ہیس کو نایاب لکڑی سے بنی ہوئی آرائشی میز تحفے میں دی تھی ۔ وہ میز اب اوول آفس کا حصہ ہے ۔ جس کے پیچھے کئی امریکی صدور بیٹھتے آئے ہیں ۔ پاکستان میں ہمیشہ ہی الٹی گنگا بہتی آئی ہے ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف زرداری توشہ خانہ سے کئی قیمتی گاڑیاں لے اُڑے اور سابق وزیراعظم عمران خان ایک گھڑی لے اُڑے ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ بین الاقوامی تحقیقی ادارے فیکٹ فوکس نے توشہ خانہ کے سکینڈل کو بہت تحقیق اور تفصیل کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ میں نے خود بھی اس تحریر کو لکھنے سے قبل کئی ملکوں کے حوالے سے کئی طرح سے تحقیق کرنے کی کوشش کی تو ہر بار پاکستان کے توشہ خانہ کی حالیہ سٹوری اُبھر کر سامنے آئی ۔ بہرکیف فیکٹ فوکس نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں شائق کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی بیگم بشریٰ بی بی نے تھوڑی سی رقم ادا کر کے سات رولیکس گھڑیاں ، ایک سے زیادہ سونے کے ہار، کئی برسیلٹس ، سونے اور ہیروں کی انگوٹھیاں ، متعدد ہیروں کی زنجیریں ، سونے کے قلم اور یہاں تک کہ ڈنر سیٹ بھی اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ اِن قیمتی تحائف کو پاکستان میں ٹیکس حکام سے تین سال سے زائد عرصے تک چھپایا گیا۔ اِن قیمتی تحائف کی تفصیل فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر موجود ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے حکومت پاکستان کے توشہ خانہ سے ایک سو بیالیس کروڑ روپے کے 112تحائف صرف چار کروڑ روپے سے بھی کم ادا کر کے اپنے پاس رکھ لیے تھے ۔
فیض صاحب کا ایک شعر ہے ۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہوگی
افسوس وہ سحرنہ ہوئی ، کیا ستم ظریفی ہے جوحکمران بنا اپنا پیٹ بھرنے کیلئے بنا۔ غریب کے بچے بھوکے مر گئے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان صاحب پڑوسی ملک کے وزیراعظم مودی کی طرح ایک مثال قائم کرتے ۔142کروڑ کے تحائف نیلام کر کے کئی گنا زیادہ رقم وصول کر کے وہ پیسے غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیتے ۔
وقت سے لمحہ لمحہ کھیلی ہے
زندگی اِک عجب پہیلی ہے
سیاست ، سیاستدانوں کو زندگی میں ایسے کئی مواقع فراہم کرتی ہے ۔ جہاں وہ چاہیں تو بد ترین یا اچھی مثال بن سکتے ہیں ۔سکندر اعظم نے نصیحت کی تھی کہ ’’جب تم میری لاش کو دفنا نے لگو تو کوئی مزار مت بنانا اور میرے ہاتھ کفن سے باہر رکھنا تا کہ دنیا کو پتہ چل سکے ، جس نے ایک دنیا فتح کی ۔ مرتے وقت وہ خالی ہاتھ تھا ۔ ‘‘
ہمیں سرکاری عمارات کی پیشانی پر اسی طرح کے قول کندہ کروانے چاہیے کہ شاید ہمارے لالچی حکمرانوں کے پتھر دلوں پر کچھ اثر ہو سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button