Anwar Ul HaqColumn

ملکی سیاست اور عمران خان کا ماسٹر سٹروک .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ملکی سیاست کا محور و مرکز عمران خان بن چکا ہے۔ سیاسی چال چلنے، چال بدلنے اور چال سے ماسٹر سٹروک نکالنے میں اس کی مہارت کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کی ہر چال اپنے اندر ہزاروں حکمتیں چھپائے ہوئے ہوتی ہے۔ عمران خان کا کمال یہ ہے کہ معمولی معاملات کو اہمیت دیتے ہوئے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بعد اس میں سے ایک نیا حیات بخش فارمولا نکال کر عوام کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ عوام کو بیدار و متحرک رکھنے کیلئے مطالبات کے زنبیل سے تازہ دم سوالات اٹھاتا، حکومت کو پریشان کرتا، عوام کو ساتھ ملاتے ہوئے برق رفتاری سے اگلے پڑاؤ پر پہنچ جاتا ہے۔ عمران خان کا اصل مقصد عوام میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابات تک عوامی جذبوں اور ولولوں کو لے جانا ہے۔ نومبر کا آخری ہفتہ بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔ پوری پاکستانی قوم ایک برس سے مسلح افواج میں چوٹی کے عہدوں پرنئی تقرریوں کے ہیجان میں مبتلا تھی۔ معمول کے ایک انتظامی اقدام پر اتنی گرد اڑائی گئی جو بذات خود ہمارے قومی وقار کیلئے انتہائی نقصان دہ تھی۔ بر وقت اور میرٹ پر تقرریوں کے عمل نے ہمیں انتشار و افتراق کی دلدل سے باہر کھینچ لیا۔
23 نومبر کو یوم شہدا کی تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک اہم خطاب کیا، جس سے آنے والے مناظر کے خدو خال واضح ہو گئے۔ 24ء نومبر کو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل سحر شمشاد جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ دونوں اصحاب اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ صدر مملکت نے حسب روایت تقرریوں کی توثیق کرکے اپنے آئینی منصب کو مزید پر وقار بنا لیا تھا۔ عمران خان نے 26 نومبر کو ایک اہم اعلان کے ساتھ اپنے حقیقی آزادی کے مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ عمران خان نے اپنے کلیدی اعلان میں صوبائی اسمبلیوں سے مکمل طور پر علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ جہاں جہاں پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں وہاں پر صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ اصولی طور پر توڑنے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن صوبائی پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ اب عمران خان نے کوچہ و بازار سے احتجاجی سیاست کو نکال کر پارلیمنٹ کے ایوانوں میں لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کےاس ماسٹر سٹروک نے سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت اب اپنی تمام تر صلاحیتوں کو پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کو بچانے پر صرف کر رہی ہے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی کے ایوان سے عملی طور پر پہلے مستعفی ہو چکی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چند استعفیٰ منظور کر لئے تھے جس کے نتیجے میں چند حلقوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہو چکے ہیں۔ انتخابات کے نتائج نے موجودہ اتحادی حکومت کے وقار کو تہس نہس کر دیا تھا۔ عمران خان انتخابات میں کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے با مراد ٹھرا تھا۔ قومی سیاست آئندہ چند ہفتوں تک مکمل طور پر تبدیل ہونے والی ہے۔ جنرل قمر جاوید نے ایک بنیادی سیاسی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ سات عشروں سے فوج کی سیاست میں مداخلت کے غیر آئینی ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ببانگ دہل بتایا کہ فوج نے فروری 2021ء میں ادارے کے طور پر سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تھا۔ ہم اس اعلان تعلقی پر قائم رہنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
ملک کے طاقتور ترین ادارے کے عہداران کی طرف یہ اعلان قومی تاریخ کی از سر نو تاریخ ترتیب دینے کے مترادف ہے ۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی سیاست سے لا تعلقی قومی سلامتی کے ادارے کا صوابدیدی اختیار ہے یا آئینی تقاضا ہے۔ فوج کی طرف سے اتنا ہی کہنا اور اس پر قائم رہنا کافی ہے۔ مسلح افواج کا اندرونی ڈسپلن قابل فخر ہے لیکن آئینی تقاضوں کی پابندی کا خوگر بنانا بھی ضروری ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سات دہائیوں کی تاریخ پر اپنی رائے دی ہے گویا جمہوری قوتوں کے اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ قوم کی سیاسی شیرازہ بندی، وفاقی اکائیوں، میں باہمی اعتماد، معاشی ترقی، عوام کے معیار زندگی میں مطلوب بہتری اور تمدنی اور ثقافتی ارتقاء جیسے بنیادی اشاریوں میں اجتماعی اور ہمہ گیر ناکامیوں کے ڈانڈے فوج کی سیاست میں مداخلت سے ملتے ہیں۔
جنرل صاحب نے فرمایا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی شکست نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ سیاسی ناکامی تھی۔ جنرل صاحب کے اس دعوے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہماری ناکامی سیاسی تھی فوجی نہیں ۔ تب ربع صدی کی سیاست پر کون غالب تھا۔ حسین شہید سہروردی جیسے سیاست دان جمہوری حقوق مانگنے کی وجہ سے جیلوں میں قید تھے۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی معاملات 13 برس سے راؤ فرمان علی چلا رہے تھے۔ ملک کا دو لخت ہونا بھلے سیاسی شکست نہ ہو لیکن یحییٰ خان کے صدارتی عزائم کو کیسے اور کیونکر فراموش کیا جائے۔ یحییٰ خان نے بد نیتی سے لیگل فریم آڈر میں عوامی نمائندوں کو پابند کیا تھا کہ وہ120 دنوں کی قلیل مدت میں دستور کو مکمل کریں گے۔ یحییٰ خان دوسری طرف اس آئین کو مکمل کر وا رہے تھے جو انہوں نے 20دسمبر 1971ء کو نافذ کرنا تھا۔ یہ ملک ہمارا ہے، فوج بھی ہماری ہے۔ اگر ہماری مسلح افواج نے سیاسی دستکاری سے احتراز کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے تو ہمیں اجتماعی طور اس کو خوش آمدید کہنا چاہیے ۔ تاہم یہ بات بھی انتہائی اہم ہے۔ محض وصال یار کی آرزو کافی نہیں ہوتی ہے اس کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت پڑ تی ہے۔ 14 مئی 2006ء کو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے تلخ و شیریں تجربات کے بعد میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے کیا تھا۔ جمہوری سیاست سے بر گشتی کا بیانیہ 70 سال سے ہمارے قلب و اذہان پر حاوی کیا گیا تھا۔ اس دوران سیاست معیشت اور صحافت سے لیکر تعلیم تک ہر شعبہ حیات کو فوجی ہیرو شپ کے تصور سے آشنا کیا گیا۔ فوج کی حب الوطنی ہمیشہ سے شک و شبہ سے بالا تر رہی ہے لیکن اختلاف یہ رہا کہ فوج سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے قومی پالیسی بنانے اور باہمی اتفاق رائے پیدا کرنے کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں ہوتی ہے۔
جو لوگ خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے دل کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ عمران خان کا حقیقی آزادی مارچ ناکام ہو گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عمران کے ایک ہی سیاسی سٹروک سے مقتدرہ اور موجودہ حکومت کو انتخابات کے سرہانے لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب عمران کی سیاسی بارگینگ کی پوزیشن بہت بہتر ہو گئی ہے پاکستان کی سیاست کا سارا محور عمران کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی لاچار و لاغر حکومت سیاسی بے بسی کا مہرہ بنی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button