ColumnImtiaz Aasi

عمران خان کا کارڈ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

تحریک انصاف کے چیئرمین وسابق وزیر اعظم عمران خان نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے میں راولپنڈی پہنچنے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں داخل نہ ہونے کا اعلان کرکے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ جلسے کے شرکا ء کی اتنی بڑی تعداد کو اسلام آباد داخل ہونے کا کہہ دیتے تو حالات خراب ہونے کا قوی امکان تھا۔جلسہ کے شرکاء کی اتنی بڑی تعداد کے پیش نظرسکیورٹی اہل کاروں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے سکیورٹی کے تین حصار بنانے کا فیصلہ کیاجو ہماری نظر میں ایک احسن اقدام تھا۔سکیورٹی فورسز کے تین حصار بنانے سے مارچ کے شرکاء اسلام آباد داخل ہونے کی صورت میںبغیر تشدد انہیں روکا جا سکتا تھا۔
1988 میں لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسہ کے بعد تحریک انصاف کایہ پاور شو بہت بڑا تھا تاحد نگاہ لوگوں کا جم غفیر تھا ۔حسن اتفاق ہے کہ جہاں مرکزی سٹیج بنا یا گیا تھا وہ ہمارے گھر سے چند فرلانگ کی مسافت پر واقع ہے۔مقررین کی تقاریر کی آواز ہماری رہائش گاہ تک سنائی دے رہی تھی۔عمران خان کاخطاب تو ساڑھے تین بجے ہونا تھا تاہم بعض وجوہات کی بنا انہیں سات بجے کے قریب عوام سے خطاب کرنا پڑا ۔ان کی آمد کے باوجود عوام کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری تھا۔عمران خان نے اپنے خطاب میں تین سالہ دور حکومت کی کارکردگی کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے بتایا ان کے دور میں ملکی معیشت حوصلہ فزاء طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی۔حکومتی حلقوں کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی عمران خان نے اسلام آباد آنے کا اعلان ہی کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے وزارت داخلہ کی درخواست پر پچاس کروڑ دے دیئے۔ طاقت وروں کے احتساب میں ناکامی کے پس پردہ محرکات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف ان کے ہاتھ باندھے ہوئے تھے یہاں تک قومی احتساب بیورو نے کرپٹ لوگوں کے خلاف مقدمات تیار کرنے کے باوجود انہیں کارروائی سے منع کر دیا گیا ۔جلسہ کے اختتام سے پہلے عمران خان نے اپنے سیاسی کارڈ جس میں صوبائی اسمبلیوں سے استعفے ٰ دینے کا اعلان کرکے حکومتی حلقوں کو حیران کر دیا۔ عام تاثر یہ تھا کہ عمران خان لانگ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد داخل ہونے کا اعلان کریں گے تو حالات خراب ہونے کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جا سکتا تھالیکن اسمبلیوں سے استعفے ٰ دینے کا اعلان کرکے عمران خان نے اپنے مخالفین کو سرپرائز دے کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
حکومت خواہ عام انتخابات کے انعقاد میں لیت ولعل کرے انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے 1977 کے انتخابات میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے سویپ کیا تھا،پی این اے نے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھاجس کے بعد ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت اور قوت ختم ہو کر رہ گئی تھی گویا اس لحاظ سے عمران خان نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کرکے ایک اچھا کارڈ کھیل کر حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ عمران خان کے راولپنڈی پہنچنے سے پہلے پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زردری کو پنجاب میںپرویز الٰہی کی حکومت کو گرانے کا ٹاسک دیا تو دوسری طرف وزیراعلیٰ پرویز الٰہی عمران خان کے گرین سگنل کے منتظر ہیں چنانچہ جیسے ہی انہیں اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا کہیں گے وہ اور ان کی جماعت کے ارکان مستعفی ہونے کا اعلان کر دیں گے۔اس وقت ملک میں عجیب طرح کی سیاسی کشمکش جاری ہے ایک طرف عمران خان کسی وقت بھی اسمبلیوں سے استعفے ٰ دینے کا کہہ سکتے ہیں تو دوسری طرف پنجاب میں حکومت گرانے کے لیے عدم اعتماد لانے کی کوشش جاری ہے۔دراصل مسلم لیگ نون نے پنجاب میں حکمرانی کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔جس کے بعد قوی امکان ہے کہ پنجاب میں خرید وفروخت کی منڈی لگنے والی ہے، فاروق لغاری نے ایسے تو نہیں کہا تھاکہ آصف زرداری اور نواز شریف کے پاس دولت ہے لہذا سیاست دان ارکان کی حمایت کے حصول کی خاطر عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے ارکان کی خریداری کا کام کرتے ہیں۔کوئی کچھ بھی کہہ لے اس وقت عمران خان عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو لیڈ کر رہے ہیں۔عمران خان اپنے ارکان کو صوبائی اسمبیلوں سے مستعفی ہونے کا کہتے ہیں تو ایسی صورت میں 550 نشستوں پرانتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا۔حکومت کو بھی چاہیے وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے چیئرمین سے بات چیت کے دروازے کھولے نہ کہ کھنچاتانی کا مظاہرہ کرکے سیاسی عدم استحکام کی شکار مملکت کو مزید ڈوبونے کی کوشش کرئے بلکہ عمران خان سے مذاکرات کرنے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کام میں پہل کرئے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے عمران خان جلد انتخابات کے مطالبے سے کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ انہیں عوام کی بہت بڑی تعداد کی تائید حاصل ہے۔پھر عمران خان کا مطالبہ کوئی غیر آئینی
نہیں ہے جلد انتخابات کوئی نئی بات نہیں ہوگی ملک میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ قبل از وقت انتخابات ہو چکے ہیں۔تازہ ترین حالات میں مقتدرہ نے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کرلی ہے تو سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے ملکی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عام انتخابات کو زندگی موت کا مسئلہ بنانے کی بجائے نئے انتخابات کی طرف جائیں تاکہ کسی طرح سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور ہماری معاشی صورت حال سنبھل سکے۔ایک حکومتی ارکان اسمبلی کے بیان پر حیرت ہے ان کے پاس کے پی کے اور پنجاب میں عدم اعتماد لانے کے لئے ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہے تو پھر دیر کسی بات کی ہے ۔پی ڈی ایم کو بہت پہلے یہ کام کرلینا چاہیے تھا۔موجودہ حا لات میں حکومت نئے انتخابات کا اعلان کرتی ہے تو انتخابات میںان کے ہا تھ کچھ نہیں آئے گا شائد انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر کی بڑی وجہ بھی یہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button