Editorial

پاک فوج کے اہم عہدوں کیلئے سمری

 

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کے عہدوں پر تقرری کے لیے 6 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز پر مشتمل سمری وزارت دفاع کو بھیج دی گئی ہے۔سمری میں سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جبکہ آخری نام لیفٹیننٹ جنرل محمد عامرکا ہے ، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد،لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس،لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اورلیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سمری میں بالترتیب دوسرے، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری وزارت دفاع سے وزیراعظم آفس کو موصول ہو گئی ہے ۔ انشاء اﷲ باقی مراحل بھی جلد طے ہو جائیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی کے پیش نظر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے معمول کی سرگرمیاں منسوخ کر دی ہیں ۔ اہم تعیناتی پر مشاورت کے لیے وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی ۔آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے لیے بھجوائے گئے ناموں کے پینل کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو پینل میں شامل ناموں کی پروفائل پر بریفنگ دی گئی۔ اگلے مرحلے میں وزیراعظم پاکستان نے اتحادی جماعتوں کو اِس معاملے پراعتماد میں لینا ہے۔ پاک فوج میں اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے لیے وزیراعظم شہبازشریف کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ کئی روز سے مسلسل مشاورت جاری ہے ، البتہ منگل کے روز اِس وقت عجیب صورت حال دیکھنے میں آئی جب حکمران جماعت کے بعض ذمہ داران نے سمری سے متعلق ایسے بیانات دیئے جو تشویش پیدا کرنے کے لیے کافی تھے، رات گئے تک حکومتی ذمہ داران اِن خبروں کی تردید کرتے رہے کہ سمری وزیراعظم ہائوس کو موصول ہوگئی ہے پس اِس کشمکش کا خاتمہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اعلان کے بعد ہوا اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اپنے ٹویٹ میں تصدیق کی کہ وزیراعظم ہائوس کو سمری موصول ہوگئی ہے، مگر اِس دوران ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا بلاشبہ اس کے بعد تشویش پیدا ہونا فطری امر ہے۔ وزیر دفاع کے مطابق سینئر فوجی افسران کا نام بھیجنے کا استحقاق جی ایچ کیوکا ہے اور سول ملٹری تعلقات میں قطعی کوئی تنائو نہیں ہے دراصل اُن کا یہ کہنا اُس صورتحال کی نفی تھی جو منگل کی رات دیکھنے کو ملی۔ پاک فوج کے اہم عہدوں پر تقرری کے معاملے پر جو صورتحال اور کج بحثی حالیہ دنوں میں دیکھی جارہی ہے، اِس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاک فوج کے متذکرہ افسران اپنی قابلیت اور ویژن کی بنیاد پر آج اِس مقام تک پہنچے ہیں لہٰذا سربراہ پاک فوج کوئی بھی بنے، اُن کی ترجیح ملک و قوم اور دفاع ہی ہوگی، پس نجانے کیوںتقرریوں پر لایعنی طویل بحث ہورہی ہے، اور زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ جو سیاسی قوتیں ہمیشہ سے
سیاست میں فوجی مداخلت کی مخالف رہی ہیں وہی اِس بحث میں پیش پیش ہیں۔ بالفرض کسی وزیر کا تقرر کرنا ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے، پاک فوج ملک کا اہم ترین ادارہ ہے لہٰذا پاک فوج میں اہم تقرریوں کے معاملے پر بحث و مباحثے کی ضرورت ہی نہیں سبھی قوم کے بیٹے ہیں اور سبھی کا واحد مقصد وطن عزیز کا دفاع ہے، مگر نجانے کیوں ہم ہر معاملے کو اتنا زیادہ کریدتے ہیں کہ اُس میں شکوک و شبہات جنم لینا شروع کردیتے ہیں اور سیدھا سادھا معاملہ بھی کج بحثی کی زد میں آکر الجھ جاتا ہے جیسا کہ زیربحث معاملہ میں بھی دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست دانوں کو ریاست کے اہم ستون اداروں اور اُن کی شخصیات کو زیر بحث لانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ موضوع زیادہ دیر تک موضوع نہیں رہتا اوربات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے اور نتیجے میں چیزیں واضح نہیں رہتیں جو لاحاصل بحث سے قبل بالکل واضح ہوتی ہیں، پس بحث کو اِس کے متعلقہ پلیٹ فارم پر کیا جائے اور تبھی جب ہم پورے معاملے سے بخوبی آگاہ بھی ہوں اور موضوع پر ہماری دسترس بھی ہو۔ ہمارے ہاں اداروں اور اُن سے منسلک اہم شخصیات کو زیر بحث لاکر عام پاکستانی کو نظام سے بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جس کے نتیجے میں عامۃ الناس کا نظام پر یقین متاثر ہوتا ہے کیونکہ انہیں نظام اور اُن سے وابستہ شخصیات سے متعلق بارہا بدظن کیا جاتا ہے۔ اتحادی حکومت کے طور پر کئی جماعتیں اِس وقت مرکزی حکومت کا حصہ ہیں اور بلاشبہ ہر اہم معاملے پرسبھی مشاورت بھی کرتے ہیں تو کیوں اِس پر اتفاق نہیں کرتے کہ ہمیں جمہوریت اور نظام کو تقویت دینے کے لیے غیر جمہوری سوچ، رویے اور لہجے کو چھوڑ دینا چاہیے۔ پاک فوج کا کام سرحدوں کا دفاع ہے، قدرتی آفات کے دنوں میں فوج شہروں میں مدد کو پہنچ جاتی ہے پھر دہشت گردی کے خلاف دنیا کی طویل ترین جنگ بھی لڑ رہی ہے اور ملک کے کونے کونے میں کارروائی کرکے ملک دشمنوں کے دہشت گردوں کو خاک میں بھی ملارہے ہیں۔ سی پیک کی حفاظت بھی انہی کے ذمے ہے کہ مشکل پڑے تو فوج کے سوا آپ کسی پر انحصار کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے تو کیوں ہم اِس اہم ادارے کو بھی سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ عسکری قیادت بارہا واضح کرچکی ہے کہ پاک فوج کا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن پھر بھی سیاسی قیادت جس طرح حالیہ دنوں میں اِس اہم ادارے کی اہم تقرریوں کو زیر بحث لائی ہوئی ہے، یہی گماں ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کے دل کے کونے کھدرے میں ایسی خواہش ضرور موجود ہوتی ہے جو انہیں اِس اہم ادارے سے متعلق بے چین کئے رکھتی ہے، ہماری سیاست کا ماضی گواہ ہے کہ ہم نے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی سے زیادہ وقت سیاسی کھینچاتانی میں گزارا اور جب پانی سر سے گذر گیا تو ہم پشیماں بھی ہوئے اور لکیریں بھی پیٹی گئیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تمام ادارے اپنے اپنے آئینی کردار کے مطابق کام کریں، عسکری قیادت اور سپاہ کو بھی اُن کا کام کرنے دیا جائے اور سیاسی قیادت بھی اپنا کام کرے اور ملک و قوم کو درپیش بحرانوں سےباہر نکالیں، وقت تیزی کے ساتھ گذر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button