Columnمحمد مبشر انوار

مارچ،خونی ہو گیا .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بالعموم اتوار کو شائع ہونے والی تحریر جمعرات کی صبح بھیج دیتا ہوں البتہ بسا اوقات دیگر مصروفیات کے باعث دیر سویر ہو جاتی ہے۔آج بھی صورتحال ایسی ہی رہی کہ کچھ ذاتی فوری معاملات میں صبح سے مصروف رہا اور بعد دوپہر گھر پہنچا،طبیعت بھی بے چین سی تھی اور دل کچھ کرنے کی طرف راغب نہیں ہو رہا تھا۔ کسلمندی ،سستی کی سی کیفیت نے دماغ پر قبضہ کر رکھا ہے کہ ایسے میں واٹس ایپ گروپس کی نوٹیفکیشن گھنٹیاں تواترسے بجنے لگیں جو بیشتراوقات ایک ہی واقعہ سے متعلق بیک وقت اطلاعات کی ہوتی ہیں۔ جیسے ہی تحریر دیکھی،ہواس باختہ سا ہو گیا کہ ہر گروپ میں عمران خان کے لانگ مارچ پر فائرنگ کی اطلاع موصول ہو رہی تھی،فائرنگ بھی براہ راست عمران خان کے کنٹینر پر اور فیصل جاوید کے شدید زخمی ہونے کی خبر کے ساتھ ساتھ عمران خان بھی اس فائرنگ کی زدمیںآئے ہیں۔علاوہ ازیں! دو مقامی ایم پی اے بھی اس فائرنگ کی زد میں آئے ہیں اورقریباً دس افراد اس فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں،پاکستانی سیاست میں ایک اور انتہائی افسوسناک واقع رونما ہو چکا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی جلسوں جلوسوں میں بالعموم مقبول ترین سیاسی قیادت پر ہی ایسے حملے کیوں ہوئے ہیں؟ سیاسی قیادت بھی وہ جو پاکستان کے حقوق کی بات کرتی ہے،پاکستانی شہریوں کی حالت زار بدلنے کی بات کرتی ہے لیکن پاکستان کے بدخواہ ایسی سیاسی قیادت کو منظر سے ہٹانے یا ’’سٹیٹس کو‘‘برقرار رکھنے کیلئےایسی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ عوام کو بھیڑ بکریاں بنائے رکھنے کی دانستہ کوششیں کی جاتی ہیں کہ کہیں اشرافیہ کی گرفت پاکستان سے کمزور نہ ہو سکے اور وہ اسی طرح عوام کو دباتے رہیں ،پاکستان کو لوٹتے رہیں۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کو ٹانگ میں تین/چار گولیاں لگی ہیں اور حملہ آوروں کے متعلق اطلاعات ہیں کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک نے پستول سے جبکہ دوسرے نے اے کے فورٹی سیون یا کلاشنکوف سے برسٹ مارے ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ ایک حملہ آور کے عقب میں ایک شخص نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ نیچے کیا ،جس کے باعث گولیاں سیدھی سینے یا اوپری جسم میں لگنے کی بجائے ٹانگوں کو لگی ہیں۔ اللہ کریم اپنی رحمت خاص سے انہیں صحت وتندرستی عطا کرے اور دیگر احباب بھی جو اس حملہ میں زخمی ہیں،انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
عمران خان اس وقت عوامی مقبولیت کی اس معراج پر ہیں کہ جس کا تصور ہی کسی سیاستدان کو خمار میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے اور اس عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر وہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ عمران خان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر عمران خان بزور کچھ کروانے کی خواہش رکھتے تو عوام کا جو جم غفیر ان کے ساتھ ہے،اس کی حمایت پر وہ ملک میں انارکی کی سی صورتحال بھی برپا کر کے حکمرانوں کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتے تھے لیکن عمران خان نے اپنے مطالبات کے حصول میںایک جمہوری و آئینی راستہ اپنایا۔ گذشتہ چھ روز سے نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی میڈیا بھی اس امر کا نہ صرف بخوبی جائزہ بلکہ شہادت بن رہا تھا کہ عمران خان کا لانگ مارچ پر امن ہی ہے اور کہیں سے بھی نہ تو سرکاری یہ غیر سرکاری املاک کا نقصان رپورٹ نہیں ہوا البتہ ایک حادثہ جو چینل 5کی رپورٹر مرحومہ صدف نعیم کے ساتھ پیش آیا،اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا کوئی تشدد سامنے نہیں آیا۔ عمران خان اپنے لانگ مارچ ،عوامی جان و مال اور ذاتی زندگی کے حوالے سے اس قدر فکرمند تھے کہ انہوں نے لانگ مارچ کو صرف دن کی روشنی تک محدود کر رکھا تھا کہ کسی بھی طرح کوئی شر پسند اس لانگ مارچ کو سبو تاژ نہ کر پائے تا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کی پرامن کوشش داغدار نہ ہوسکے۔مخالفین اس طریقہ کار کو مختلف القابات دے رہے تھے لیکن عمران خان ان القابات کو پرکاہ کی حیثیت دینے کو بھی تیار نہیں تھے کہ انہیں علم تھا کہ یہ سب حربے انہیں جال میں پھانسنے کیلئے ہیں تا کہ کہیں کوئی خلاء ایسا ملے کہ یا تو اس لانگ مارچ کے غبارے سے ہوانکالی جائے یا عمران خان کو راستے سے ہٹایا جائے۔ہر دو صورتوں میں مقصد ایک ہی تھا کہ کسی طرح عوام کو سڑکوں سے ہٹایا جاسکے کہ لانگ مارچ سے قبل مسلسل کامیاب ترین جلسوں کی تاریخ کا رقم ہونا،ضمنی انتخابات میں شدید ہزیمت کا سامنا ،عوام کے سامنے کسی خاطر خواہ بیانیہ کی عدم موجودگی اور اب سب سے بڑھ کرمسلم لیگ نون کی صف اول کی قیادت کا بیرون ملک جانا،عوام میں جڑوں کو اکھاڑنے کے مترادف ہے جبکہ حکمران؍شاہی خاندان پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنی جاگیر تصور کرتا ہے۔
پاکستان کی داخلی صورتحال کے مد نظر عمران خان سمیت کئی دوسرے سیاسی رہنماؤں کو حفاظتی اقدامات سے متعلق آگاہ کیا جا چکا تھا اور اس سے قبل عمران خان کی حکومت میں بھی پی ڈی ایم کے سیاستدانوں کو اس حوالے سے متنبہ کیا جا چکا تھا لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم نے بھی اس خطرے کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے جلسے جلوس اور مارچ کئے البتہ ان کیلئے حفاظتی اقدامات خاطر خواہ رہے ۔ایسا کوئی بھی واقع رونما نہیں ہوا جس کیلئے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے،دعا اور خواہش تو یہ بھی رہی کہ دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرح عمران خان بھی ان خطرات سے محفوظ رہیں لیکن جیسا عرض کیا کہ عمران خان کا اثرورسوخ براہ راست عوام میں اس قدر بڑھ چکا ہے اور محسوس ایسے ہورہا ہے کہ اقتدار کا کھیل کھیلنے والوں کیلئے اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔لہٰذا اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہی حل بچتا ہے کہ یا تو عمران خان کو منظر سے ہٹایا جائے یا اس سے عوامی حمایت کو چھین لیا جائے خواہ اس کیلئے ڈر اور خوف اس قدر پھیلایا جائے کہ لوگ عمران خان کے جلسے جلوسوں میں شریک نہ ہوں۔اس حادثے کے بعد سب سے بنیادی سوال سکیورٹی کا اٹھے گا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی سکیورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟عمران خان کا لانگ مارچ ہنوز پنجاب میں ہے اور اس وقت جب یہ حادثہ ہوا ہے،پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے گھر سے چند کلومیٹر دور ہی تصور ہو رہا ہے اور انگلیاں براہ راست انہی پر اٹھ رہی ہیں کہ بطور اتحادی اور تحریک انصاف کی مرہون منت وزارت اعلیٰ کے باوجود یہ حادثہ کیسے اور کیونکر رونما ہوا؟کیا اس کا مقصد عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان اختلافات کو فروغ دے کر دوریاں پیدا کی جائیں ؟پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کی بات نہ ماننے کی سزا دلوائی جائے یا ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کا منصوبہ زیر غور ہے؟
امن و امان یا سیاسی انتشار کی صورتحال کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو پاکستان میں بالعموم ایسی صورتحال غیر آئینی طاقتوں کیلئے انتہائی مناسب تصور ہوتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کا مدعا سامنے رکھتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو جائیں لیکن کیا اس ایک واقعہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ غیر آئینی طاقت انتہائی اقدام اٹھا لے؟اس سے قبل بھی بارہا یہ اظہار ہو چکا ہے کہ سیاستدانوں کو فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے موجودہ صورتحال کے متقاضی،ملک وقوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنا چاہیے نہ کہ فقط اقتدار ہی ان کا مطمع نظر رہے ۔ اس وقت اقتدار کی رسہ کشی میں بظاہر دو فریق اور پس پردہ تیسرا فریق موجود ہے،جس سے پاکستانی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیاسیاسی قیادت، جمہوری عمل کو جاری رکھنے کیلئے باہم بات چیت نہیں کر سکتے یا پس پردہ کوئی قوت انہیں دور رکھ رہی ہے یا سیاستدان حقائق کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہیں؟کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں ایسی صورتحال کے پیش نظر فوری نئے انتخابات کا ڈول ڈال دیا جاتا ہے تا کہ احتجاجی سیاست کی ایسی قباحتوں سے بچا جا سکے لیکن پاکستان میں احتجاجی سیاست کا اپنا نرالا انداز ہے کہ یہاں سیاستدان آخر وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہتے ہیں،ایسے حالات کی طرف ملک کو لے جایا جاتا ہے کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے،مارچ کے خونی ہونے سے ابتداء ہو گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button