Column

تاپی گیس منصوبہ !

ضیاء الحق سرحدی
موجودہ نگران حکومت کو بخوبی ادراک ہے کہ جب تک توانائی کا بحران حل نہیں ہوتا ملک معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ اس بحران پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن ذرائع بروئے کار لا رہی ہے۔ اس سلسلے میں تاپی منصوبے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ناظرین کرام! 13دسمبر 2015ء کو ترکمانستان کے شہر ’’ میری‘‘ میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، سابق افغان صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر قربان علی محمد دف اور بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری اس منصوبے کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھا تھا اور چاروں رہنماؤں نے اس پائپ لائن منصوبے پر اپنے دستخط بھی کئے تھے تاکہ یہ تاریخی لمحہ ریکارڈ کا حصہ رہے۔1735کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ ایک سنگ میل تھا اور اس پر 10ارب ڈالر لاگت آنی تھی اور اس طرح 2019ء میں پاکستان کو گیس کی فراہمی شروع ہونی تھی۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کو 1325ملین مکعب فٹ روزانہ قدرتی گیس ملنی تھی۔ یہ گیس لائن ترکمانستان سے ہوتی ہوئی قندھار ہرات ہائی وے سے گزر کر پاکستان پہنچ کر بھارت جانی تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ منصوبہ اگر مکمل ہوجاتا تو یہ علاقائی و اقتصادی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیتا۔ تاپی منصوبے کی بدولت پاکستان، بھارت اور افغانستان میں قریبی تعلقات بہتر ہوتے ۔ جس سے علاقائی تجارت کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوتا۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو یہ بخوبی ادراک ہوچکا تھا کہ جب تک وہ باہمی تجارت کو ترقی نہیں دیں گے وہ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہاں سے غربت اور جہالت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام تر اختلافات کے باوجود تجارتی مفادات کو اہمیت دے رہے تھے جوان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بھی بنتی جبکہ ترکمانستان سے یہ منصوبہ افغانستان کے دو صوبوں ہرات اور قندھار سے گزر کر پاکستان آتا، قندھار سے جب پائپ لائن پاکستان کے علاقے میں داخل ہو کر کوئٹہ پہنچتی اور کوئٹہ سے ملتان آتی۔ عین ممکن ہے اس تعاون کی وجہ سے پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت بھی محسوس کرتے اگرچہ دونوں ملک پہلے سے علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے رکن ہیں لیکن طویل عرصے سے کام کرنے والی یہ تنظیم خطے کی ترقی میں کوئی معرکہ سرانجام نہیں دے سکی۔ بلاشبہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور بالخصوص پاکستان کو گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات اور قومی معیشت کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات کے ازالے کیلئے یہ منصوبہ خوشحالی، ترقی اور معاشی اعتبار سے مضبوط پاکستان کی نوید اور ضمانت ثابت ہوتا۔ خطے میں پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور ہماری رائے میں یہ منصوبہ جو کہ بجا طور پر لائف لائن قرار دیا جا سکتا تھا اس کو عملی جامہ پہنانے میں ترکمانستان کے صدر قربان گل کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاپی گیس پائپ لائن کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری پر ترکمانستان نے پاکستان میں فارن انویسٹمنٹ پروموشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ ( ٹپپا) کے تحت دستوری و آئینی تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ جس کا انحصار لاء ڈویژن کی قانونی رائے پر ہے۔ یہ پائپ لائن ترکمانستان سے ہو کر افغانستان اور پاکستان سے گزرتے ہوئے بھارت تک جائے گی ۔ جس میں 85فیصد شیئر ز ترکمانستان کے ہوں گے۔ پاکستان کا موقف ہے افغانستان اور بھارت سے بھی آئینی و قانونی تحفظات طلب کئے جائیں تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ تا پی یعنی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن کا ابتدائی معاہدہ 1995میں ہوا، 2002اور 2008میں اس پر نظر ثانی کی گئی ،لیکن 2012کے بعد بھارت ایک طرح سے اس معاہدے سے نکل گیا۔ معاہدے کے مطابق پائپ لائن کی تعمیر 2015میں شروع ہو نا تھی۔ ترکمانستان نے اپنے حصے کی تعمیر 2019میں مکمل کر دی ہے، افغانستان میں بھی تیزی سے کام ہورہا ہے، لیکن پاکستان پاک ایران پائپ لائن کی طرح یہاں بھی ابھی تک ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے، حالانکہ پاکستان کو صرف 20کروڑ ڈالر ا دا کرنے ہیں اور یہ پائپ لائن پاکستان کی توانائی کی قلت کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پاکستان کے رویئے کو دیکھتے ہوئے ترکمانستان کی جانب سے آئینی گارنٹی مانگنا ہمارے پالیسی سازوں پر عدم اعتماد ہے۔ لازم ہے کہ مزید تاخیر نہ کی جائے ، اور جس طرح سے ریکوڈک کے معاملہ میں آئینی گارنٹی دی گئی ہے، اس منصوبے کو یہ گارنٹی دے دینی چاہئے، تا کہ پاکستان کا اعتماد بحال ہو اور عوام کو گیس کی دستیابی میں آسانی پیدا ہو سکے۔ اس منصوبے میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شراکت دار ہیں اور ترکمانستان کے صدر قربان علی کے وژن سے تاپی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو انرجی اور کمیونیکیشن کوریڈور بنایا گیا ہے جس سے خطے کے ممالک کے سڑک، ریل، بجلی، گیس، آئی ٹی سمیت دیگر مختلف شعبوں میں باہمی رابطوں میں اضافہ ہوگا اور خطے میں امن و امان کی بحالی اور معاشی و اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔ تاپی منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد دے گا اور اس کی تکمیل سے پاکستان میں توانائی کی کل ضرورت کا 10فیصد پورا کرنے میں مدد ملے گی جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے سب سے با کفایت رابطہ ہے اور ون بیلٹ ون روڈ اقدام سے شاندار مواقع میسر ہوں گے۔ یہ امر بھی لائق تحسین ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے اس منصوبے کی حفاظت کا یقین دلایا گیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس گیس پائپ لائن کی حفاظت کرینگے۔ تاہم جن طالبان کے ساتھ اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں امن کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے وہ ضرور کرنا چاہئے اور اگر طالبان اس سلسلے میں تعاون پر آمادہ ہوں تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ امید کرنی چاہئے کہ تاپی منصوبہ اب نہ صرف پروگرام کے مطابق مکمل ہوگا بلکہ اس سے خطے کے ملکوں میں باہمی تعاون کے راستے کھلنے کی جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں وہ بھی ضرور پوری ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button