کشمیر پاکستان کا قدرتی اٹوٹ انگ

کشمیر پاکستان کا قدرتی اٹوٹ انگ
تحریر : محمد ساجد قریشی الہاشمی
کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی تعلق صدیوں پہلے کرہ ارض وجود میں آ نے کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا۔ قدرت نے خطہ کشمیر کے شمال میں کوہ ہمالیہ اور مشرق میں پیرپنجال کے پہاڑ ی سلسلے کاایک حصار قائم کرکے اسے بیرونی دست برد سے محفوظ بنادیا اور اس کی ہوائوں ، فضائوں، پانیوں، خوشبوئوں اور اس کے باسیوں کی خواہشات وامنگ اور امید ویقین کا رخ بھی مغربی جانب موجودہ پاکستان کے علاقوں کی طرف موڑکر ان کے درمیان ایک لافانی رشتہ قائم کر دیا۔ ریاست میں جب اسلام کے نورکی کرن چمکی تو یہ علاقے اسلامی اخوت کے ایک انمٹ رشتے میں بھی بندھ گئے ۔ریاست اپنے قدرتی حسن وجمال اور بے پناہ قدرتی وسائل کی وجہ سے بیرونی طالع آزمائوں کا مطمع ٔ نظر رہی اور مقامی حکمرانوںکے بعد مغل، افغان ، سکھ ،انگریز اور پھر ڈوگرے اس پر قابض رہے اوران ادوار میں جب بھی ریاستی مسلمانوں پر افتاد پڑی تو ان کی جائے پناہ یہی علاقے ٹھہرے ۔1857ء کے بعدجب ہندوستان میں بیداری کی لہر پیداہوئی اور جس نے آگے چل کر اسلامیان ہند میں ایک علیحدہ وطن کی خواہش پیداکی تو ریاستی مسلمان کی امیدیں بھی جاگ اٹھیں۔30دسمبر 1930ء میں الہ آباد میں فرزندکشمیر علامہ محمداقبالؒ کی طرف سے جب کل برصغیر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میںمسلمانوں کے مستقبل کے علیحدہ وطن کی سرحدات کی نشاندہی کی تو اس میں ریاست جموں وکشمیر بھی شامل تھی اور جب23مارچ 1940ء کو قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کی انتھک محنت او ر مساعی جمیلہ سے قرارداد پاکستان متفقہ طورپر منظور ہوئی تو اس میں پونچھ کے مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی قیادت میں ریاستی مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے لاہور جاکر بانیٔ پاکستان سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ اس قراداد کی دوٹوک حمایت وتائید کااعلان بھی کیا ۔ قائداعظم ؒ کوریاستی مسلمانوں کی آزمائشوں اور مصائب کا بخوبی ادراک تھا اوروہ اپنی قدرتی سیاسی بصیرت سے اس بات کے قائل ہوچکے تھے کہ کشمیر ی مسلمانوں کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان میں ہی محفوظ ہوسکتا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے 1944ء کے اپنے سری نگر کے دورے میں ریاستی قیادت کو پاکستان کی غرض وغایت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت کی وجہ سے آنے والے خطرات کے بارے میں انتباہ بھی کیا لیکن شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے چندمفادات کے لیے ہندو کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا جس کے بھیانک نتائج ریاستی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔
مسلمانان ریاست جموں وکشمیر نے شیخ عبداللہ کے ارادوں کو بھانپ کر پاکستا ن کے قیام سے قبل ہی 19جولائی 1947ء کوغازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ سرینگرپر قائم مقام صدرکل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس چودھری حمیداللہ کی صدارت میں جنرل کونسل کے اجلاس میں خواجہ غلام دین وانی اورعبدالرحیم وانی کی طرف سے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی ایک قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی اور مہاراجہ سے عوام کی خواہشات، ان کی مذہبی ،ثقافتی ،لسانی اور جغرافیائی قربت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے الحاق کے سلسلے میں عملی اقدام کا مطالبہ کیا لیکن مہاراجہ نے انگریزوں اور بھارتی سیاستدانوں کے ساتھ طے شدہ منصوبے کے مطابق کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن کشمیری عوام نے ان کے ارادوں کو خاک میں ملادیا۔ جمہوری دنیا میں الحاق کی قراردادیں دن کی روشنی میں ، سب لوگوں کی موجودگی میں ہوتی ہیں نہ کہ بند کمروں میں خفیہ سازبازسے یا اپنے ہی عوام کے ڈر سے بھاگتے ہوئے ۔ کشمیری قوم نے جب ببانگ دہل پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو اس اعلان پر پہرہ بھی دیا اور ا س سے روگردانی کرنے والوں کا پیچھا بھی کیا۔بھارت کو جب کشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دیا تو واویلا کرتے ہوئے اس نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس نے اسے مکمل شکست سے تو بچا لیا لیکن کشمیر کے مسئلے کو مستقل کھٹائی میں ڈال دیا جو گزشتہ78 سالوں سے ہنوز حل طلب چلاآرہاہے ۔ پاکستان نے پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کا مدلل مقدمہ پیش کیا اور اپنی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کے ساتھ ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑارہا جس کی پاداش میں پاکستان پر پانچ جنگیں مسلط کی گئیں اور اسے معاشی، معاشرتی ، لسانی ، ثقافتی اورجغرافیائی دہشتگردی کانشانہ بھی بنایا گیا۔
جغرافیائی طورپر کشمیر پاکستان کا جزولاینفک ہے اور ان کے عوام کے درمیان بھی محبت کا اٹوٹ رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظیم سے عظیم تر اور وسیع سے وسیع تر ہوتاگیاہے ۔ کشمیر یوں کی جدوجہد دراصل تکمیل پاکستان کی جنگ ہے جس میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں نے بھی اپنا تن من دھن نچھاور کیاہے جس کا مظاہرہ حالیہ جنگ مئی میں پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب بھارت نے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں پاکستان اور آزادکشمیر کے مختلف علاقوںپر حملہ کیا تو پاکستانی اور کشمیری عوام اپنی مسلح افواج کے دست وبازو بنے اور اس کے پیچھے انتہائی جرأ ت اور استقامت سے کھڑے ہوگئے۔ دنیا کی بہادر سے بہادر افواج کبھی بھی اپنے عوام کی مددوحمایت بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی اور پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے پاکستانی اور کشمیری عوام کی تائید ونصرت سے اپنے سے انتہائی بڑی فوج کو، جوکہ ہرطرح کے کیل کانٹے سے لیس تھی، اسے اس کے غرور وتکبر سمیت زمین بوس کرکے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھادی۔
پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ۔ پاکستان ہروقت ہرموقع پر اقوام متحدہ کو اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرتا آیاہے اور اسے باور کراتا رہاہے کہ مسئلہ کشمیر کا ابھی تک حل نہ ہونا اس ادارے کی اپنی ساکھ اور اس کی افادیت پر سوالیہ نشان بھی ہے اس کے علاوہ بھارت کو بھی اس کے پہلے وزیر اعظم جوہر لال نہرو کے کشمیریوں سے کیے ہوئے وعدے کو بھی یاد دلاتا رہتاہے لیکن بھارت نے اپنی طاقت کے نشے میں اسے کبھی اہمیت نہ دی جو اس کے ایک بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کی نفی بھی ہے۔
بھارت کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان اس سے دستبردار ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی حق خود ارادیت کی تحریک کی حمایت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنا جائز اور مسلمہ حق حاصل نہیں کر لیتے ۔19جولائی 1947ء کی الحاق پاکستان کی قرارداد محض ایک کاغذ کا پرزہ نہیں تھا اور نہ ہی کشمیر اور پاکستان کا اٹوٹ رشتہ کسی دستاویز کا محتاج تھا بلکہ یہ قرارداد مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے دلوں کی آواز اور ان کی امیدوں، خواہشوں اور جذبات واحساسات کی ترجمان تھی۔ ان شاء اللہ! وہ وقت بھی جلد آنے والا ہے جب اس قرارداد پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوگا اور کشمیری عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گی اور اسی وقت حقیقی معنوں میں تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق پاکستان کی تکمیل بھی ہوگی۔ بقول نسیم سیفی:
کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔ جب سارا اٹھے گا پاکستان
آزادی کے ایجنڈے کی ۔۔ تکمیل کرے گا پاکستان
اپنے اس سچے دعوے سے ۔۔ پیچھے نہ ہٹے گا پاکستان
اللہ کی مدد سے ایک نئی ۔۔ تاریخ لکھے گا پاکستان
ساجد قریشی







