وقت کرتا ہے پرورش برسوں
صفدر علی حیدری
سرور ارمان نے کیا اچھا کہا ہے
حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا
ہم نے چل کے دیکھا ہے راستے سے ہٹ کر بھی
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں حادثات نہ ہوتے ہوں مگر ہم پاکستانیوں کی تو گویا تلاش میں رہتے ہیں ۔ پاکستان یا ترقی پذیر ممالک کی نسبت وہاں اموات کی شرح کہیں کم ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ ہے حد درجہ حفاظتی انتظامات ۔ وہاں کی سڑکیں کشادہ بھی ہوتی ہیں اور ان پر بنا کسی تعطل کے ٹریفک کا بہائو جاری رہتا ہے ۔ وہاں ناجائز تجاوزات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ہمارے یہاں ناجائز تجاوزات کو جائز سے اوپر کا درجہ حاصل ہے ۔ دکان سے کئی کئی فٹ باہر سامان نہ رکھیں تو ہمیں تسلی نہیں ہوتی۔ ٹریفک حادثات کی وجوہات میں تجاوزات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا جاتا ۔ حالاں کہ یہ بھی حادثات کی اہم وجہ ہیں ۔
نقل و حمل زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت آمدورفت کے ذرائع میں جدت پسندی واقع ہوئی ہے۔ سفر کو پر لگ گئے ہیں ۔ ہفتوں کا گھنٹوں ، گھنٹوں کا لمحوں میں طے ہونے لگا ہے۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹر سائیکل موجود ہے ۔ جب کہ پہلے دور میں موٹر سائیکل کسی کسی کے پاس ہوتا تھا ۔ سائیکل کو شاہی سواری سمجھا جاتا تھا ۔ لوگ پیدل چلنے میں خوشی اور۔ فخر محسوس کرتے تھے ۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5لاکھ تک اضافہ ہوچکا ہے جبکہ 2030تک ان گاڑیوں کی تعداد 18لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے ۔ پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جن کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹر سائیکل بہ آسانی مل جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو جاتے ہیں جبکہ 50ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے ۔ اگر مختلف صوبوں میں ٹریفک حادثات کی صورت حال دیکھی جائے تو ادارہ شماریات نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں 2018۔2017کے کُل حادثات کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی جس میں صوبہ پنجاب میں کُل 5093حادثات ہوئے جن میں 3371لوگ جاں بحق، 6772افراد زخمی ہوئے۔ سندھ میں کُل 848 حادثات ہوئے، جن میں 802جاں بحق جبکہ 838افراد زخمی ہوئے ۔ خیبر پختونخوا میں کُل 4425حادثات ہوئے جن میں 1298جاں بحق جبکہ 6093افراد زخمی ہوئے، بلوچستان میں 1496حادثات ہوئے جن میں 313لوگ جاں بحق اور 624لوگ زخمی ہوئے اور اسلام آباد میں 259حادثات ہوئے جن میں 167لوگ جاں بحق جبکہ 162لوگ زخمی ہوئے۔ ان حادثات کا تجزیہ کیا جائے تو ان حادثات میں پنجاب سرفہرست ہے کیونکہ وہاں آبادی باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔
نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق ، اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030ء میں 200فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال 9ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہوتے ہیں ۔پاکستان میں ٹریفک حادثات پر غور کیا جائے تو اس کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ۔ سب سے پہلے ڈرائیورز حضرات کی جانب سے ٹریفک سگنل کا توڑنا، سیٹ بیلٹ کے استعمال میں بے پروائی و غفلت، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور تعمیل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، گاڑی کی ناقص حالت کی وجہ سے ٹائر کا پنکچر ہونا، یاں محدود مدت کے بعد ٹائروں کی حفاظت و تبدیلی نہ کروانا حادثات کی وجوہات میں شامل ہیں۔ تاہم، ڈرائیورز کی بے پروائی و غفلت گاڑیوں کے تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8فیصد حادثات تیز رفتاری جبکہ 17فیصد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔
پاکستان کے بڑے شہروں پر 84فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور پگڈنڈی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو دیکھا بھی گیا ہے کے ڈرائیور حضرات کی طرف سے پیدل چلنے والے افراد کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، جہاں سڑک پر زیادہ رش ہو ڈرائیورز حضرات شارٹ کٹ کے چکر میں فٹ پاتھ یا پگڈنڈی کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں کم عمر نوجوانوں کا موٹرسائیکل و گاڑی چلانے کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خطرناک حادثات پیش آتے ہیں ۔ اس لیے 24فیصد لوگ ایسے ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں اور اپنی دہشت پھیلاتے ہیں ۔
اوورلوڈنگ حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اوورلوڈنگ کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہو جاتے ہیں یا ٹائر میں گرمائش زیادہ ہونے کے سبب ٹائر پھٹ جاتے ہیں سو گاڑیوں کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو بُری طرح متاثر کرتا ہے ۔ سڑکوں پر موٹرسائیکل چلانے والے اپنے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیتے ، اگر پیچھے والوں کو اشارہ نہیں دیتے سو غلط اوور ٹیکنگ کی وجہ حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں جس کا مقصد ان کی مثال سامنے رکھ کر بہتری کا رستہ اختیار کرنا ہے۔ ان اقدامات کو دیکھا جائے تو دستاویزات کی شکل میں تو موجود ہیں لیکن عملاً یہ غیر موجود ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کو اپنی اولین ترجیح قرار دے ۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو ، حکومت کو ایسی ایجنسی متعارف کرانا ہوگی جو سڑک پر حادثات سے بچاؤ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ۔ حکومت اسے باقاعدہ وسائل فراہم کرے ۔اس کے علاوہ روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان بنانا ہوگا جس اس موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جا سکے اور جسے نافذ بھی کیا جا سکے ۔ حکومت کی جانب سے روڈ سیفٹی کے لیے مختص رقم میں کئی گنا اضافے کی اشد ضرورت ہے۔
فیڈرل حکومت کی جانب سے ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ کو فنڈ دئیے جاتے ہیں جبکہ صوبائی حکومت اس معاملے کے لیے فنڈز مختص نہیں کرتی ۔ سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کے لیے بہترین سول انجینئر لائے جانے چاہئیں ۔ اس کے ساتھ حکومت کو پرانے ٹریفک قوانین میں ترمیم کرنی ہو گی ۔ ہمارے پاس موجود موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا ۔جس طرح ڈنڈے کے زور پر کام کرایا جاتا ہے اسی طرح سخت قوانین کو سامنے رکھ کر کارروائی کی جانی چاہیے ۔ یہاں پر جن چیزوں پر سختی سے عمل کرانا چاہیے ان میں ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال ، قوانین کی پاسداری، جدید ٹیکنالوجی جس میں سی سی ٹی اور ڈبلیو سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام متعارف کرانا شامل ہے تاکہ ڈرائیور حضرات کے ساتھ پیدل چلنے والے افراد پر بہ آسانی نگرانی رکھی جا سکے گی ۔ اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہیے، اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد کرنا ہونا چاہیے اور ڈرائیورز حضرات کے لیے گاڑی کی رفتار مختص کرنی ہوگی جب کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔
روڈ سیفٹی کی ساخت اور ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ قانون بنانے والے اداروں کو ایسی پالیسی متعارف کرانی ہونگی جو زیادہ عرصہ تک لاگو بھی کی جا سکے۔ عموماً پاکستان میں متعارف کرائے جانے والا قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے ، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتیں ، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات آپ سب کے سامنے ہی ہیں ۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں ۔یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے ۔ ان کمپنیوں کو ذمے داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے ۔ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اس کے نتائج کی متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجینسی کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے ۔ حادثات اور صحت پر ہونے والے سالانہ اخراجات کے بارے میں لوگوں اور اداروں کو پتا چلنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی بے پروائی کی وجہ سے ہونے والے خطرناک حادثات کے کس قدر منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔
کسی بھی ملک کا نظام شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے اس لیے عوام کی جانب سے حکومت پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو بلند کرے ۔ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ روڈ سیفٹی کے قوانین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں کیوں کہ ملکی نظام کو بہتر بنانا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی بلکہ شہریوں کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی پیروی کرنا لازمی ہے ۔ اگر ان مجوزہ اقدامات پر عمل درآمد کیا جائے تو پاکستان میں بڑھتے ہوئے حادثات میں دھیرے دھیرے کمی لائی جا سکتی ہے۔
آخر میں ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے کہ اسی واقعے سے متاثر ہو کر یہ کالم لکھا جا رہا ہے اس میں اگرچہ ٹریکٹر ٹرالی والے کی غفلت بھی کارفرما ہے مگر اصل قصور اس دکان دار کا ہے جس نے اپنا سامان روڈ پر رکھا ہوا تھا، دو دن قبل ہمارے شہر میں دو رویہ مین روڈ پر ایک آٹھ سالہ بچہ انتہائی بائیں طرف سائیکل چلا رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک ٹریکٹر ٹرالی والے نے اسی ٹکر ماری اور وہ بچہ سڑک پر گرا اور اسے اٹھنا نصیب نہ ہو سکا ۔ ابھی وہ روڈ پر گرا ہی تھا کہ ٹرالی اس کے سر پر چڑھ گئی اور بچہ شدید زخمی ہو گیا ۔ اس کا سر پھٹ گیا ۔ اسے اسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور دم توڑ گیا ۔ سی سی ٹی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ ایک صندوق بنانے والے دکان دار نے اپنا سامان کوئی تیس فٹ دکان سے باہر رکھا ہوا تھا ۔ کچھ سامان روڈ پر بھی رکھا تھا ۔ اس حادثے کا سب سے زیادہ قصور وار وہ دکان دار ہے جسے کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ سب ٹریکٹر ٹرالی کے ڈرائیور کو پر ہی الزام دھر رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک کہ وہ بھی قصور وار ہے ۔ سڑک کھلی تھی وہ دائیں طرف سے نکل سکتا تھا مگر ۔۔۔ سڑک پر تجاوزات کے خلاف سخت ترین آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ ایسے دل خراش سانحات سے بچا جا سکے ۔۔
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ، اسے روکا جا سکتا ہے
بقول قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا