اقوام متحدہ۔ وزیراعظم پاکستان

ندیم اختر ندیم
کچھ لوگ کسی بھی موسم میں صرف اپنی باتوں سے آرزئوں کا جہان آباد رکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ حقائق پسند ہوتے ہیں اور حقائق سے آراستہ باتیں ہی کرتے ہیں لیکن کچھ ملمع کاری سے کام لیتے ہیں ۔
ایک وکیل صاحب، جج صاحب کو متاثر کر رہے تھے تاکہ جج صاحب کی طبیعت کی نرمی سے کام لیا جاسکے، وکیل صاحب فرما رہے تھے جج صاحب بڑے نیک آدمی ہیں، بڑے ایماندار ہیں، پاس کھڑے دوسرے وکیل صاحب گویا ہوئے جی بالکل آپ نے درست فرمایا، ہم جج صاحب کی ایمانداری کے گواہ ہیں، ہمارے سامنے ہی تو جج صاحب ایماندار ہوئے ہیں۔
قارئین کرام ! جج صاحب کے ایماندار ہونے کی اس بات کو معروف شاعر جناب ظفر اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے، تاہم اس کی تصدیق میں گنجائش رکھتے ہیں ۔
ایک وکیل صاحب، جج صاحب سے اپنے کیس میں کچھ رعایت چاہتے تھے، وکلا صاحبان کی رعایت بھی خدانخواستہ کسی غلط کام سے تعبیر نہیں ہوتی، زیادہ سے زیادہ وہ اپنے سائل کی ضمانت چاہتے ہوتے ہیں یا کیس کی تاریخ میں انہیں جج صاحب کا التفات مقصود ہوتا ہے۔ وکیل صاحب، جج صاحب کی عدالت میں اپنا کیس پیش کرتے ہیں، جج صاحب فائنل دیکھنے لگتے ہیں تو ساتھ ہی وکیل صاحب کہتے ہیں سنا ہے جناب کی پروموشن ہوگئی ہے، جج صاحب بھی اپنی ترقی کے منتظر تھے، وکیل صاحب کے منہ سے اپنی ترقی کی بات سنتے ہی فوری وکیل صاحب کا کیس ان کی منشاء کے مطابق نمٹاتے ہوئے اپنی ترقی کی کنفرمیشن کیلئے ادھر ادھر سے دریافت کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ایک وکیل صاحب کو اپنے سائل کی ضمانت چاہئے تھی، وکیل صاحب نے ضمانت دائر کی اور عدالت کے ایک کونے میں بیٹھی کوئی بڑھیا جو اپنے کسی دوسرے کام سے آئی تھی، کی طرف اشارہ کرتے جج صاحب کی توجہ دلاتے کہتے ہیں جناب وہ بڑھیا دیکھئے جو دور بیٹھی ہے، کتنی لاغر اور ضعیف ہے، اس نے کبھی جوانی میں گھر سے قدم باہر نہیں رکھا کہ جب وہ اچھی طرح سے چل پھر سکتی تھی اور آج جب ٹھیک سے کہیں آنے جانے کے قابل بھی نہیں تو اپنے بچے کیلئے فریاد لے کر جناب کی عدالت میں آگئی ہے کہ جناب اس کی داد رسی فرمائیں گے کہ عمر بھر جو خاتون گلی تک نہیں گئی آج جناب کی عدالت تک آگئی ہے۔ جج صاحب وکیل صاحب کی بات سنتے، بڑھیا کی ضعیف العمری اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے وکیل صاحب کو اس کے سائل کی ضمانت دے دیتے ہیں۔
وکیل صاحبان تو رہے ایک طرف وکلاء صاحبان کے منشی اتنے قابل ہوتے ہیں کہ کیا کہئے، ہمارے جج صاحب عزیز دوست جناب اعجاز احمد بٹر مرحوم سیشن جج ریٹائرڈ حق مغفرت فرمائے، ان کی عدالت میں ایک ایسا کیس آگیا جس کے ملزم کی طرف سے جو وکیل صاحب تھے وہی وکیل صاحب مدعیوں کی طرف سے بھی تھے، جج صاحب نے فائلیں دیکھ کر متعلقہ وکیل صاحب سے بات کی کہ جناب وکیل صاحب دونوں طرف سے میدان میں ہیں؟، تو عقدہ یہ کھلا کہ یہ کارنامہ ان کے منشی کا ہے۔ وکلا صاحبان سے معذرت کا خواست گار ہوں کہ ان کے پیشے کے حوالے دینے پڑے لیکن ایسے استاد لوگ تو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پائے جاتے ہیں۔
اعجاز بٹر ،اللہ درجات بلند فرمائے، بتایا کرتے تھے کہ بچپن میں بعض اوقات ماں سب بھائیوں سے کم پیسے انہیں دیتی، کسی بھائی کو ایک روپیہ، کسی کو آٹھ آنے، جج صاحب کو چار آنے ملتے، تو ماں سے کہتے ماں جی بڑے بھائی کو ایک روپیہ، دوسرے کو آٹھ آنے اور مجھے چار آنے؟۔ جج صاحب کو اعجاز نام کی نسبت سے بچپن میں جج کہا جاتا تھا جیسے اکثر پنجابی میں اعجاز کو ججی یا ججا بھی کہتے ہیں تو جج صاحب کے کم پیسے ملنے کے سوال پر ماں کہتی کہ : میرا جج پتر وی تے توں ای آں ناں ( میرے جج بیٹے بھی تو آپ ہی ہو )۔ تو جج صاحب کہتے اللہ نے مجھے واقعی جج بنا دیا۔
افضل ظلہ سپریم کے گیارہویں چیف جسٹس رہے ہیں، ان کا پورا نام محمد افضل ظلہ ہے، ان سے کسی نے سوال کیا کہ جناب یہ ظلہ کیا ہے؟، ظلہ آپ کی کاسٹ ہے یا کیا؟۔ تو جج صاحب نے بتایا کہ ان کی ماں بچپن میں انہیں افضل سے ظلہ کہتی، تو ماں کی محبت و عقیدت میں ہم نے ظلہ کو اپنے نام کا حصہ بنالیا۔
پنجابی زبان کی شاعری اور موسیقی کا بڑا نام منظور حسین ( جھلا) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے نام کے ساتھ ( جھلا) یہ آپ کا تخلص ہے کیا ہے؟، تو منظور جھلا نے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی سے اظہار تمنا کر دیا تو سامنے والے نے کہا: جا او جھلے آ، تو اس کے بعد انہوں نے جھلا اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔
بات سے بات نکلی ہے تو اجمل نیازی یاد آگئے، حق تعالیٰ مغفرت فرمائے، ان سے تقریباً پچیس سالہ رفاقت رہی، بڑے یار اور دلدار آدمی تھے، ان کی اہلیہ باجی رفعت بڑی مہمان نواز ہیں، ایک تقریب میں کہا گیا کہ ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، تو اجمل نیازی نے کہا درست ہے ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ایک ناکام شخص کے پیچھے بہت سی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ہم کچھ دوست سرحدی دیہات کی سیر کو نکلے، واپسی پر سرحد کے قریب ایک قصبہ میں رکے، میں اس قصبے کا نام دانستہ نہیں لکھتا کہ کسی کی دلآزاری نہ ہو، یہ تاریخی قصبہ ہے اور اس کا ’پگا‘ ( ایک مٹھائی کا نام ہے) بڑا مشہور ہے، لوگ دور دراز سے اس قصبے سے ’ پگا‘ لینے آتے ہیں، حتیٰ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں تک اس مٹھائی کی ڈیمانڈ ہے، اس قصبہ کے لوگ باتوں کے بڑے ماہر ہیں، خود اس قصبہ کے ہمارے ایک جاننے والے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ہمیں چائے کی طلب ہوئی، ایک سبزی فروش سے جا ملے، دعا سلام کے بعد بتایا کہ ہم سیر کو آئے ہیں، وہ بڑا خوش ہوا اور ہمارے چھوٹے سے قافلے میں شامل دوستوں سے اظہار محبت بھی کیا، ہم نے اپنی بات بیان کی جناب ہمیں صرف یہ بتائیے کہ یہاں اچھی چائے کہاں سے ملتی ہے۔ سبزی فروش جو بڑی عقیدت کا اظہار کر رہا تھا کوئی دقیقہ فروگزاشت کئے بغیر بولا یہاں کہیں سے بھی اچھی چائے نہیں ملتی، البتہ یہاں سے چند کلو میٹر واپسی کی طرف فلاں قصبے کے چائے بڑی اچھی ہے، وہاں جا کر کسی بھی دکان سے چائے پیجئے، آپ جھوم جائیں گے، ہم اس قصبے میں پہنچے اور چائے منگوائی، پہلا گھونٹ لیا پر چائے حلق سے آگے نہ جا سکی، اس قدر بے مزہ چائے کہ کیا کہئے۔ ہم نے وہاں ایک صاحب سے پوچھا جناب یہاں اچھی چائے کہاں سے ملتی ہے، اس نے بتایا جناب جو قصبہ آپ پیچھے چھوڑ آئے ہیں، وہاں کی چائے بڑی مشہور ہے، ہم یہاں سے اکثر وہاں چائے پینے جاتے ہیں، ہمیں وہ سبزی فروش یاد آگیا جس نے اپنے قصبے کی اچھی چائے سے صرف اس لئے محروم رکھا کہ کہیں مروت میں چائے اسے نہ پلانی پڑ جائے۔
قارئین محترم! یہ باتیں تو تھیں کچھ یار اور فنکار لوگوں کی، لیکن وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین، کشمیر، لبنان پر جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے وہ لائق تحسین ہے، جیسے ہی جناب شہباز شریف اپنی تقریر ختم کر کے نشست پر پہنچے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کے لیے پوڈیم پر آئے تو وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستانی وفد نے احتجاجاً اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔
اس واک آئوٹ نے دنیا کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے ۔





