Column

ڈی چوک یا دشمن ملک کا قلعہ؟

امجد آفتاب

دو، تین روز پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ کیسے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔ حسبِ معمول، حسب روایت علی امین گنڈا پور اپنے کارکنوں کو حملہ آور ہونے کے لیے اکساتے رہے۔
علی امین گنڈا پور یہ بیان دیتے رہے کہ ہمارے قافلے کو کسی نے اسلام آباد جانے سے روکا کوئی رخنہ ڈالا تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا بلکہ اس سے ایک قدم آگے یہاں تک فرما دیا کہ کسی سکیورٹی ادارے نے ایک گولی چلائی تو اس کو دس گولیوں کا جواب ملے گا ۔علی امین صاحب اُس وقت اپنا لائو لشکر لیکر کے پی کے سے اسلام آباد کی جانب لپکے جب ملائیشیا کے وزیراعظم اسلام آباد میں موجود تھے، اس کے علاوہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی میزبانی اسی ماہ ہونے جا رہی ہے ۔
وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے 5اکتوبر سے 17اکتوبر تک سکیورٹی کے لیے آرٹیکل 245کے تحت پاک فوج کو طلب کر لیا ہے۔ گزشتہ روز پاک فوج کے دستوں نے اسلام آباد میں اہم شاہراہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں تھیں۔ وفاقی حکومت نے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے فوج کو تمام اختیارات دے دئیے ہیں تاکہ شرپسند عناصر اور شنگھائی تعاون تنظیم کو سبوتاژ کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا سکے۔
پنجاب حکومت نے بھی وفاقی حکومت کی طرح پاک فوج کو امن و امان برقرار رکھنے کیلئے تمام اختیارات دے دئیے ہیں ۔ پاکستان میں ایک بین الاقوامی سطح کی شنگھائی تعاون تنظیم کی اجلاس کی میزبانی کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں جہاں پر رکن ممالک کے سربراہ شرکت کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اور اس کا پر امن انعقاد ہمارے ملکی اداروں کی ذمہ داری ہے اور اس میں زرا برابر بھی غفلت کی گنجائش نہیں۔ جہاں دیگر سیاسی جماعتیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو پاکستان میں ہونے کو اہم قرار دے رہی ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف نے حسبِ روایت بانی پی ٹی آئی کی کال اور علی امین گنڈا پور کی سربراہی میں اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ کہنے کو تو یہ ان کا سیاسی احتجاج ہے مگر تحریک انصاف کے ماضی کو دیکھتے ہوئے کسی صورت اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور جب یہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں ہونے والا ہے تو ہرگز اس پر تشدد احتجاج کی گنجائش نہیں ۔
2014 ء کے دھرنے سے لیکر سانحہ 9مئی تک تحریک انصاف کے سیاسی احتجاج داغدار ہیں اُن کے یہ احتجاج پر تشدد مظاہروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تحریک انصاف کے لیڈران اور کارکن کبھی پر امن نہیں رہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ ملک کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد سے ان کے پرتشدد مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ہمیشہ یہ تاثر دیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے آگے کچھ نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ملک کی عزت اور سالمیت کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
کے پی کے حکومت کی افغانستان سے متعلق خود ساختہ پالیسی ہو یا ترجمان کے پی کے حکومت کی جانب سے بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کو احتجاج میں شامل ہونے اور خطاب کی دعوت دینا ہو یہ سب حرکتیں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عزت پر براہ راست حملہ ہے۔ تحریک انصاف کی ان روایت کو دیکھتے ہوئے اکثر ان کے سیاسی مخالفین اور بعض تجزیہ نگار ان کو تحریک انتشار کا لقب دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی کی تیاریاں شروع کردی گئیں تو عین اسی وقت بانی پی ٹی آئی کے اعلان اور علی امین گنڈا پور کی سربراہی میں خیبر پختو نخوا سے نکلنے والے قافلے نے اسلام آباد کی طرف چڑھائی شروع کردی۔ ان کا منزل مقصود اسلام آباد کا ’’ ڈی چوک‘‘ تھا ۔ علی امین گنڈا پور اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈروں نے اپنے کارکنوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی تھی اور برین واش کیا گیا کہ جیسے یہ اسلام آباد کا ڈی چوک نہیں بلکہ دشمن ملک کا قلعہ ہے، جسے فتح کر کے ہی لوٹنا ہے۔ بیچاری کارکن جو ان کی اندھی تقلید میں لگے ہوئے ہیں، بغیر کوئی تحقیق کیے علی امین کے پیچھے دوڑے آئے۔ وفاقی حکومت نے بھی اس بار تحریک انصاف کے پلان کو بھانپتے ہوئے اور ان عزائم کو روکنے کیلئے مکمل کمر کس لی۔ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے جلوس یا دھرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسی تناظر میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کا اس وقت اسلام آباد کی طرف چڑھائی کا مقصد اسلام آباد میں منعقد ہونی والی شنگھائی تعاون تنظیم کو سبوتاژ کرنا ہے جس کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں کوئی جانی و
مالی نقصان ہوا تو اس کی تمام ذمہ داری بانی پی ٹی آئی اور وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور پر عائد ہو گی۔ وزیر داخلہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے واٹس ایپ چیٹ میں بنوں کے لوگوں کو بمعہ اسلحہ احتجاج میں شامل ہونے کا کہا گیا جبکہ ان کے احتجاج میں افغان بھی شامل ہیں۔ واقعی اگر ایسا ہی ہے تو یہ الارمنگ سچوئشن ہے۔ یہ کسی طور پر سیاسی احتجاج نہیں۔ اس لیے کافی عرصے سے تحریک انصاف کسی صورت سیاسی جماعت کے طور پر سامنے نہیں آ رہی۔ تحریک انصاف اپنے ماضی سے بھی سبق نہیں سیکھ رہی، وہ ہمیشہ جتھوں کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی روش پر قائم ہے۔ اگر تحریک انصاف کے موجودہ لیڈر شپ نے ہوش کے ناخن نا لیے اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی تو یہ ان کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔
تحریک انصاف کے اس احتجاج اور ملک میں ہلڑ بازی سے شاید ان کے کچھ مقاصد تو مکمل ہو جائیں مگر یہ ملک کی عزت اور عالمی دنیا میں پاکستانی کی رسوائی کا باعث بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button