Column

گنڈا پور کی روپوشی اور رونمائی پر سنجیدہ سوالات

رفیع صحرائی
علی امین گنڈاپور اپنے لائو لشکر اور سرکاری وسائل کے ساتھ جوں جوں اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے پی ٹی آئی کے ورکرز کا جوش اس سے دوگنی رفتار سے آسمانوں کی طرف محو پرواز تھا۔ وہ راستے بھر جوشیلا خطاب کرتے ہوئے ورکرز میں ایک ولولہ تازہ بھی پیدا کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ ایک وہیکل کی چھت پر بھی بیٹھ کر اپنے قافلے کی سالاری کرتے دیکھے گئے جس پر ان کے سوشل میڈیا ورکرز نے انہیں اس صدی کا سب سے بہادر اور دلیر لیڈر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ادھر اسلام آباد میں بھی ٹھیک ٹھاک احتجاج جاری تھا۔ حالات کو دیکھ کر لگتا تھا کہ علی امین گنڈا پور خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ کچھ بڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ اسلام آباد پہنچے تو انہوں نے ورکرز کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی اور چند لوگوں کو ساتھ لے کر بقول ان کے راستے کی تھکن اتارنے اور چائے پینے کے لیے خیبر پختونخوا ہاس روانہ ہو گئے۔ کے پی ہاس میں ان کے داخلے کے چند منٹ بعد اسلام آباد پولیس اور پھر رینجرز داخل ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی علی امین گنڈا پور یکدم ہی کہیں غائب ہو گئے۔
علی امین کی مبینہ گمشدگی ہر پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری عمر ایوب نے ٹویٹ داغ دیا کہ علی امین کو کے پی ہاس سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو بھی وارننگ دی کہ گنڈا پور کو فوراً رہا کیا جائے ورنہ نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس ہر ملک بھر میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ورکرز نے طوفان مچا دیا۔ حکومت نے ان کی گرفتاری کی تردید کر دی۔
ادھر علی امین کی مبینہ گرفتاری کے اگلے ہی روز کے پی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلوایا گیا جس میں علی امین گنڈا پور کی مبینہ گرفتاری کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور ان کی رہائی کے لیے وفاقی حکومت کو24 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ اس قرارداد میں وفاقی وزیرِ داخلہ اور گورنر کے پی پر گنڈا پور کی گرفتاری پر مسلسل جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ اکثریت رائے سے منظور کی گئی قرارداد کی گونج بھی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ 24گھنٹے سے زیادہ غائب رہنے والے علی امین کے پی اسمبلی میں پہنچ گئے اور اپنی گرفتاری کی تردید کر دی۔ وزیرِ اعلیٰ 24گھنٹے کے دوران کہاں تھے؟ اس حوالے سے واضح نہیں ہو سکا تاہم صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئی خود علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کی کارکردگی دیکھیں، میں ساری رات وہیں تھا انہیں نہیں ملا۔ انہوں نے اپنی گرفتاری کی دوٹوک الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں رات بھر کے پی ہاس میں ہی تھا، کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ وہاں پولیس نے کئی بار چھاپے مارے، میں دیکھ رہا تھا۔ میں پورے بارہ اضلاع سے گزر کر یہاں پہنچا ہوں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے بھی کہا تھا کہ گنڈا پور کو کسی نے گرفتار نہیں کیا لیکن کے پی اسمبلی نے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے قرارداد منظور کر لی۔ اس سے پہلے کہ یہ غبارہ پھولتا خود علی امین نے ہی اس میں سوئی چبھو دی۔
ادھر علی امین کی گمشدگی پر سنجیدہ حلقوں میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ خود پی ٹی آئی کے ورکرز نے سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ شروع کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ ان کی تحریک جب کامیابی کی منزل کے بالکل قریب تھی تو ڈی چوک جانے کی بجائے وہ عین وقت پر ورکرز اور قافلے کو چھوڑ کر کے پی ہاس کیوں چلے گئے؟ اگر وہ کے پی ہائوس میں گرفتاری سے بچ گئے تھے تو انہوں نے اپنے سیٹلائٹ فون کے ذریعے باقی لیڈرشپ سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ ان کے دعوے کے مطابق اگر ان کا موبائل فون، پرس اور دوسری اشیاء ان سے لے لی گئی تھیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سامان لینے والے ان تک پہنچ گئے تھے پھر وہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد پولیس نااہل ہے جو ان تک نہیں پہنچ سکی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہاں سے نکل کر وہ بارہ اضلاع عبور کر کے بچتے بچاتے پشاور پہنچ گئے لیکن احتجاجی مظاہرین کے پاس ڈی چوک کیوں نہیں پہنچے جہاں ورکرز کی موجودگی میں انہیں گرفتار کرنا ممکن نہ تھا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ انہوں نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ مجھے گرفتار کرنا ہے تو کر لو، میں گرفتاری سے نہیں ڈرتا۔ اگر یہ حقیقت ہے اور وہ اتنے ہی بہادر ہیں تو پھر انہوں نے کے پی ہائوس میں گرفتاری کیوں نہیں دی؟ وہاں سے فرار کیوں ہوئے؟ ۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ علی امین باقی اداروں کا نام لیتے ہوئے کیوں ڈر گئے اور سارا ملبہ صرف آئی جی اسلام آباد پر ہی کیوں ڈالا؟ ایک اور سوال اس سے بھی اہم ہے کہ جب احتجاج عروج پر تھا تو عوام اور مظاہرین کی توجہ احتجاج سے ہٹا کر علی امین نے اپنی مبینہ گمشدگی کی طرف موڑ کر احتجاج کو کمزور کیوں کیا؟ اس پلاننگ کے پیچھے کون تھا؟ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ علی امین پختونخوا ہائوس کیوں گئے تھے؟ عوام میں ہوتے تو ان کا ’’ اغوا‘‘ ممکن ہی نہ تھا ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ ان کے منظر سے ہٹنے کے بعد کیا حکمتِ عملی تھی کہ احتجاج کو کون لیڈ کرے گا؟ ڈی چوک پر عوام تو موجود تھی مگر پی ٹی آئی کی تمام قیادت غائب کیوں تھی؟ تحریکِ انصاف کی سیاسی کمیٹی نے علی امین کی خودساختہ گمشدگی کے بعد اعظم سواتی کو احتجاج کی قیادت کرنے کی ذمہ داری سونپی مگر وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھے اور نہ بعد میں پہنچے۔ کیا احتجاجی تحریک بغیر کسی منصوبہ بندی کے کامیاب ہو سکتی ہے؟
اور اب ایک کروڑ کا سوال یہ ہے کہ علی امین کی تقریر کو سرکاری میڈیا چینل کے علاوہ حکومت سے ہمدردی رکھنے والے تمام پرائیویٹ چینلز نے براہِ راست کیوں دکھایا؟۔
سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں جو سب کے سب علی امین گنڈاپور کی شخصیت و موجودہ کردار کو متنازعہ اور مشکوک بناتے ہیں مگر حیرت ہے کہ علی امین کی تقریر کے بعد پارلیمنٹیرینز نے ان سے ملاقات کر کے ان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اگر تمام حالات و واقعات اور کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کی تمام لیڈرشپ عمران خان کی رہائی نہیں چاہتی۔ علیمہ خان کے علاوہ سب لیڈر عمران خان کو جیل کے اندر ہی رہنے دینا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عمران خان باہر ہوں گے تو پارٹی کو خود اپنی مرضی سے کنٹرول کریں گے۔ سیاسی طور پر بونے جو آج پارٹی کے اندر قدآور پہلوان بنے ہوئے ہیں وہ سب اپنے مقام پر واپس چلے جائیں گے۔ اقتدار اور سیاسی طاقت کا نشہ بہت برا ہوتا ہے۔ ساری عمر جان نہیں چھوڑتا۔ گنڈا پور نے پارٹی کے ساتھ گزشتہ ایک مہینے کے اندر وہ کچھ کر دیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سیاسی قوتیں پچھلے چھ سال میں نہ کر سکیں۔ یہ تو واضح ہے کہ انہوں نے یہ سارا کھیل تحریکِ عدمِ اعتماد سے بچنے یا صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کو روکنے کے لیے کیا ہے۔ اور گمان غالب ہے کہ وہ آئندہ بھی ایسے مس ایڈونچرز کرتے رہیں گے۔ وہ وفاق اور مقتدرہ کے لیے اس کردار میں ہر لحاظ سے قابلِ قبول ہیں۔ صوبے میں ترقی یا عوام کی فلاح کی بجائے وہ صوبے کے سارے وسائل احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں پر خرچ کر کے صوبے کو بنجر بناتے رہیں گے۔ اس طرح صوبے میں پارٹی کی ساکھ اور پوزیشن کمزور ہوتی جائے گی جو مقتدرہ اور وفاقی حکومت کے حق میں ہے۔ علی امین کامیاب اداکاری کے شعبے میں آسکر ایوارڈ کے مستحق ہیں۔

جواب دیں

Back to top button