Column

ڈگریاں اور بے روزگاری: سسٹم کی ناکامی کا عکاس

تحریر : آصف علی درانی

کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک خبر دیکھی کہ ایک پی ایچ ڈی، یعنی ڈاکٹر آف فلاسفی، بازار میں خشک میوہ بیچ رہا ہے۔ یہ ہمارے حکمرانوں اور پورے نظام کے لیے شرم کی بات ہے کہ ایک پی ایچ ڈی شخص سڑک پر خشک میوہ فروخت کر رہا ہے۔ اگر کسی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ حالت ہو، تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟ ایسے پی ایچ ڈی کا کیا فائدہ جو ڈگری حاصل کرنے کے بعد خشک میوہ فروخت کر رہا ہو؟ بہتر تھا کہ وہ شروع سے ہی سڑک کنارے کچھ فروخت کرتا۔ ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ یہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ جب ملک سے سفارش اور رشوت ختم ہوگی، تب ہی مستحق افراد کو نوکریاں ملیں گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
پی ایچ ڈی کرنا کوئی آسان کام نہیں، بلکہ یہ بہت محنت اور مشکلات سے گزرتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام بھی مسائل سے دوچار ہے۔ بچپن میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ علم بڑی دولت ہے، لیکن اب یہ بات درست نہیں رہی۔ اب غیر ضروری فیسیں، امتحانات کے لیے الگ فیس، ماہانہ ٹیسٹ کے لیے الگ فیس وصول کی جاتی ہے۔ سارا سال ان فیسوں میں خرچ ہوتا ہے۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ ایک لڑکا جو جماعت نہم کا طالب علم تھا اور سارا دن آوارہ گردی کرتا تھا، اس نے بھی ستر فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں، لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔ تعلیم کا معیار انتہائی گر چکا ہے۔
پاکستان میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح بھی کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں معاشی، سماجی اور حکومتی پالیسیوں کا کردار شامل ہے۔ معاشی نمو کی کمی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے، کیونکہ جب معیشت کی ترقی سست ہوتی ہے تو نئے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ تعلیمی نظام کی خامیاں بھی بے روزگاری کی ایک وجہ ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں عدم استحکام اور معاشی بحران کی صورتِ حال نے نئی سرمایہ کاری کو روک دیا ہے، جس کے نتیجے میں کاروباروں اور صنعتوں کی توسیع محدود ہو گئی ہے۔
اگرچہ حکومتیں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے مختلف منصوبے پیش کرتی ہیں، لیکن اکثر یہ پالیسیاں موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ بے روزگاری کو کم کرنے کے لئے جامع اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے جو نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرے بلکہ مستقبل کے چیلنجز کے لئے بھی تیار ہو۔
معاشرتی مسائل جیسے غربت، بدامنی، اور سیاسی عدم استحکام بھی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے لوگوں کو معیارِ زندگی کی بہتری کے مواقع کم ملتے ہیں، جبکہ بدامنی اور سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاروں کو اعتماد نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کی کمی اور اقتصادی سرگرمیوں کی سست روی دیکھنے کو ملتی ہے۔
مہارتوں کا فرق بھی بے روزگاری کا ایک اہم پہلو ہے۔ ملازمتوں کے مواقع موجود ہونے کے باوجود، بعض نوجوانوں کے پاس مطلوبہ مہارتیں نہیں ہوتیں جو مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس کی وجہ سے وہ مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، جس کا نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں نکلتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر پاکستان میں بے روزگاری کی صورتِ حال کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ اس مسئلے کا موثر حل نکالنے کے لئے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی، تعلیمی، صنعتی، اور حکومتی مسائل کا حل پیش کرے۔ بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہوگا۔ اس کے لیے صنعتی ترقی، کاروباری مواقع کی تخلیق، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ضروری ہے۔ زراعت، مینوفیکچرنگ، اور خدمات کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید ترین طریقے اپنانا بھی اہم ہے۔ تعلیمی نظام کی اصلاحات بے روزگاری کے مسئلے کا حل فراہم کر سکتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق جدید کورسز اور ٹریننگ پروگرامز فراہم کرنا ہوں گے۔ ہنر مندی کے فروغ کے لیے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر زور دینا بھی ضروری ہے، تاکہ طلبا کو عملی مہارتیں حاصل ہوں جو کہ ملازمت کے مواقع بڑھا سکیں۔
صنعتی ترقی کے لیے حکومت کو صنعتی پالیسیوں اور قوانین میں بہتری لانی کی ضرورت ہے۔ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے، اور مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت اور مختلف سٹیک ہولڈرز، بشمول نجی شعبے، تعلیمی ادارے، اور غیر سرکاری تنظیمیں، مل کر کام کریں۔ مشترکہ کوششوں سے معاشرتی، اقتصادی، اور تعلیمی اصلاحات کو کامیابی سے نافذ کیا جا سکتا ہے، جو بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے اور ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button