Column

ویک اپ کال

تحریر : صفدر علی حیدری
برسوں پہلے کا ایک منظر مجھے آج تک نہیں بھولتا۔ ایشیائی کھیلوں میں چار سو میٹر کی ریس جاری تھی۔ پوری قوم غلام عباس کے لیے دست دعا تھی۔ سب کی سانسیں رکی ہوئی تھیں ۔ لوگ دم سادھے ٹی وی اسکرین کو بن پلکیں جھپکائے دیکھ رہے تھے ۔ کئی کھلاڑی ٹریک کر سر پٹ دوڑ رہے تھے۔ ہر کھلاڑی جی جان سے دوڑ رہا تھا۔ سر دھڑ کی بازی لگا کر یہ مقابلہ جیتنا چاہتا تھا۔ ان میں غلام عباس پاکستانی بھی تھا۔ طلائی تمغے کے لیے قوم کی واحد امید۔ ریس اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ فاصلہ تیزی سے سمٹ رہا تھا کہ اچانک ایک اتھلیٹ جس نے سبز رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی، اچانک گر گیا۔ لوگوں نے اپنے کلیجے تھام لیے۔ وہ ڈر گئے تھے کہ اس کے گرتے ہی خوابوں کا شیش محل بھی گر گیا ہے۔ لیکن یہ کیا ۔۔ یہی گرنا اسے جتوا گیا۔ طلائی تمغے کا حق دار بنا گیا۔
جی ہاں صاحب یہ غلام عباس تھے، جنہوں نے طلائی تمغہ جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا ۔ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ کچھ عرصہ قبل کسی ٹی وی چینل نے اس کا انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا۔ یہ دیکھ کر دل پر برچھی سی چلی کہ وہ غلام عباس جس نے قوم کو وکٹری سٹینڈ تک پہنچایا تھا، آج اس کا بھینس کے باڑہ ہے۔
کوئی قوم اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتی۔ یہ ملک کے سفیر جو ملک کا نام روشن کرتے ہیں کیا اس قابل ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔ ان کے بڑھاپے میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے۔ یہی بات اس ملک میں کھیلوں کی بربادی کا سبب ہے۔
کرکٹ کو چھوڑ کر کون سا کھیل ایسا ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہو۔ جس کو سپانسر کیا جاتا ہو ۔ اور تو اور قومی کھیل کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سکوائش جیسا کھیل بھی کہ جہاں پاکستان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، گم نامی کے اندھیرے میں ڈوب چکا ہے۔ ایک وقت تھا ٹاپ ٹین میں آدھے کھلاڑی پاکستان کے ہوا کرتے تھے، آج وہاں کوئی پاکستانی دکھائی نہیں دیتا۔
کبڈی ، کشتی ، والی بال ، ٹینس ، بیڈ منٹن ، اتھلیٹکس ، بیس بال وغیرہ جیسے کھیل زوال کے دلدل میں ڈوب چکے ہیں۔ صرف سرکاری سرپرستی کافی نہیں ہوتی نہ ہی مراعات سب کچھ ہوتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ سکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ انڈر سکسٹین ، انڈر نائنٹیں مقابلے دم توڑ چکے ہیں۔ جب پرائیویٹ لوگ شعبہ تعلیم میں گھسے ہیں، کھیلوں پر زوال آ گیا ہے۔ پرائی ویٹ اداروں کے پاس نہ میدان ہیں نہ ان کا اس بات پر فوکس ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں پر بھی توجہ دی جائے۔
ہمیں یاد ہے ہمارے بچپن میں ہر سال تین دن کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے۔ کھیلنے والے تو پرجوش ہوتے ہی تھے ، دیکھنے والے بھی بہت مشتاق ہوا کرتے تھے ۔ میدان کھچا کھچ بھر جاتے تھے۔ میلے کا سا سماں ہوتا تھا ۔ مقابلہ جیتنی والی ٹیموں تحصیل ، ضلع اور پھر صوبائی سطح پر کھیلنے جاتی تھیں۔ یوں کئی ہونہار کھلاڑی ان کھیلوں سے نکل کر قومی ٹیم تک رسائی حاصل کرتے تھے ۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ مقابلے اور بھی زیادہ سنجیدگی سے منعقد کرائے جاتے تھے۔ ان کھیلوں کے لیے ضروری سامان اور فنڈ بھی تواتر سے فراہم کیے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ تقاریر اور قرات کے بھی مقابلے ہوا کرتے تھے۔ جیتنے والوں کو نقد انعام اور سرٹیفکیٹ دئیے جاتے تھے۔ کھیلوں کی بنیاد پر داخلے تک مل جاتے تھے۔ یہ کھلاڑی پڑھائی میں اکثر کمزور ہوا کرتے تھے مگر ان کی کھیلوں میں غیر معمولی صلاحیتوں کے پیش نظر ان کو خصوصی مقام ملتا تھا۔
اب یہ باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے یہ صدیوں پرانی باتیں ہوں جن پھر سے ظہور ممکن نہ ہو۔
ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر کھیل کو اون کرے ۔ کھلاڑیوں کو یکساں عزت و مراعات دے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے کرکٹ کے کسی اور کھیل کو لفٹ نہیں کرائی جاتی ۔ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں راشد ندیم جیسا کوئی کھلاڑی اپنی ذاتی محنت سے کوئی مقام پاتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ دے دلا کے اپنا فرض پورا کر لیا جاتا ہے۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ چوبیس کروڑ آبادی کا ملک ہو اور اس کے دستے میں سات افراد شامل ہوں۔ اب یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ایک گولڈ میڈل کی وجہ سب ہم اپنے روایتی حریف سے دس مقام اوپر ہیں۔
ارشد ندیم کی کامیابی ایک ویک اپ کال ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کرکٹ کے علاوہ ان سب کھیلوں کو خصوصی مقام دیا جائے، جو اولمپکس اور ایشیائی کھیلوں میں شامل ہیں۔ کسی دور میں سارک گیمز بھی منعقد ہوا کرتے تھے ۔ اسی طرز کی کھیلیں اسکول گیمز کالج گیمز اور یونی گیمز کے نام سے پورے ملک میں ہر سال منعقد کروائے جائے ۔ ضروری سامان اور فنڈز فراہم کیے جائیں ۔
ان مقابلوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو انعامات دیے جائیں ۔ مختلف محکموں میں ان کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دیں جائیں۔ کھیل کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن ہوتا ہے ۔
سو ملک و قوم کا سافٹ امیج ابھارنے اور بچوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے کھیل سے بڑھ کر کوئی اور سرگرمی نہیں ہو سکتی ۔ یہ بات ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ ہماری ملک کی اکثریت نوجوان پر مشتمل ہے ۔ اور نوجوانوں کو کھیلوں کی مدد سے مثبت کاموں میں مصروف رکھا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button