Column

زیرو سے بڑا ہیرو

تحریر : سیدہ عنبرین
ارشد ندیم پیرس اولمپکس میں پاکستان کیلئے سونے کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا، بلاشبہ اس کامیابی کے پیچھے ایک طویل ریاضت ہے، اس اولمپکس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کھلاڑی کم اور آفیشل زیادہ تھے، بعض آفیشلز اپنی بیگمات کے ساتھ بحرظلمات میں گھوڑے دوڑاتے دیکھے گئے، پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ایک پیراک چالیسویں نمبر پر تھے، خدا کا شکر وہ ڈوب نہیں گے، ورنہ پاکستان کا نام، ڈوبنے والے کے ساتھ ساتھ ارشد ندیم کی عظیم الشان کامیابی بھی کہیںنظر نہ آتی۔ ارشد ندیم فاتحانہ انداز میں لاہور ایئر پورٹ پہنچا تو اس کا شایان شان استقبال کیا گیا، محاورہ سچ ہوتا نظر آیا کامیابی کے سو خصم ہوتے ہیں ناکامی کا کوئی وارث نہیں بنتا۔ اگر واقعی شمار کیا جائے تو شاید ایک سو ایک خصم اس کامیابی کو اپنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جاتے نظر آئیں۔ سرکاری حکام کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس کے استقبال کیلئے آئی، جن میں میاں چنوں کے علاوہ پنجاب کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگ اس خوشی میں شامل ہونے کیلئے پہنچے۔ ارشد ندیم کے آبائی گھر پر بھی ایک جلسے کا سا سماں بندھا تھا، اپنے پرائے سب اسے مبارک دینے کیلئے امڈ آئے، لاہور پہنچنے سے قبل ارشد ندیم کی والدہ کا انٹرویو سوشل میڈیا پر آ چکا تھا، اسی طرح چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والے بھارتی نیزہ باز نیرج چوپڑہ کی والدہ کا شہرہ آفاق فقرہ، جس جس نے سنا اس نے انہیں داد دی، انہوں نے کہا ہمارے لئے چاندی کا تمغہ بھی سونے سے کم نہیں۔ ارشد ندیم نے زیادہ محنت کی وہ سونے کے تمغے کا حقدار ٹھہرا، ہمیں اس بات کی خوشی ہے ارشد ندیم بھی میرا بیٹا اور نیرج چوپڑہ کا بھائی ہے، ایسے ہی جذبات کا اظہار ارشد ندیم کی والدہ کر چکی تھیں۔ یوں اس کھیل کو کفر و اسلام کی جنگ بنانے والوں کو شدید مایوسی ہوئی، دونوں کھلاڑیوں کی مائوں نے جو خوبصورت بات کہی وہ زمانے کو عرصہ دراز تک یاد رہے گی۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہئے، اسے جنگ نہیں بنانا چاہئے، جبکہ جنگ سر پر آن پڑے تو اسے جنگ کی طرح لڑنا چاہئے، اسے کھیل نہیں سمجھنا چاہئے، وقت کا اہم سبق یہی ہے۔
یو ٹیوبرز نے اکثر موقعوں کی طرح اپنے نمبر بنانے کیلئے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا وہ آج سے 15برس قبل کے ارشد ندیم کے حالات سنا سنا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں میں لگے رہے اور یہ تاثر رہتے رہے جیسے ارشد ندیم مقابلے میں اترنے سے پہلے اسے میسر فقط آدھا پراٹھا کھا کر میدان میں اترا تھا، اس کے پائوں میں جوتے نہ تھے اور شاید وہ مقابلے سے ایک رات قبل پیرس کے بازار میں کسی دکان کے تھڑے پر سویا تھا، مگر وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔ یہ آغاز ہے اسے ابھی بہت آگے جانا ہے، ایسا کچھ نہ تھا ارشد ندیم نے یقنیاً غربت دیکھی، لیکن وہ 2012ء میں یوتھ فیسٹیول میں ابھر کر سامنے آیا، اس کا ٹیلنٹ اور ضروریات دیکھ کر ذمہ دار اداروں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کی معاونت کی، جس کی تفصیلات اب منظر عام پر آنے لگی ہیں، اس کی اعلیٰ درجہ کی ٹریننگ کیلئے اسے غیر ممالک بھی بھجوایا گیا، اس کی ٹریننگ کیلئے غیر ملکی کوچ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ ارشد ندیم نے اس سے قبل بھی بین الاقوامی مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت کے صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب نے وطن واپس پہنچتے ہی اسے شرف ملاقات بخشا، اس کی پذیرائی کی، پھر اسے تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا، جو یقیناً اس کا حق تھا۔
مختلف ٹی وی چینلز پر اس کے پرانے انٹرویو چلائے جا رہے ہیں، جس میں ارشد ندیم خود بتاتا ہے کہ عالمی سطح کے مقابلوں میں شریک ہونے اور مقابلے میں استعمال ہونے والا نیزہ صرف لکڑی کی ایک لمبی سوٹی اور اس کے منہ پر لگا ہوا لوہی کا نوک دار ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ اس نیزے کی قیمت 5سے 6لاکھ روپے ہوتی ہے۔ عالمی مقابلوں میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کے پاس 6،5جولین ہوتے ہیں، لیکن عرصہ دراز تک اس کے پاس ایک ہی جولین تھا، جو وہ اور اس کے دیگر ساتھی ٹریننگ میں استعمال کیا کرتے تھے۔
ارشد ندیم کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں کہ وہ کاسہ گدائی لئے گھر گھر اپنے ہوائی ٹکٹ کیلئے چندہ مانگتا رہا، اولمپکس میں جانے والے ہر کھلاڑی اور آفیشل کی تمام ضروریات کیلئے وسیع فنڈز دستیاب ہوتے ہیں، یہ ماضی میں اللے تللوں میں خوب اڑائے جاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز تک پاکستان کسی بھی مقابلے میں کوئی گولڈ میڈل حاصل نہ کر سکا۔ ایک زمانے میں پاکستان مختلف ایونٹس میں کم از کم 7،6تمغے جیتا کرتا تھا۔
آرمی سے تعلق رکھنے والے اتھلیٹ 100میٹر یا 110میٹر، ہزار میٹر ریس میں سونے کا تمغہ جیتتے رہے ہیں، ہمارے باکسر بھی وکٹری سٹینڈ پر پہلی پوزیشن پر نظر آئے، اسی طرح ہاکی کا گولڈ میڈل تو یقینی ہوا کرتا تھا، ماضی میں ایک نوجوان فیصل تھا، جس کا تعلق لاہور سے تھا، وہ بہترین پیراک تھا، اس نے بھی پاکستان کیلئے میڈل جیتے، وہ عالم شباب میں مر گیا۔
ارشد ندیم کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن اس کی بعض خوبیاں بتانا ایک فرض کی طرح کچھ لوگوں کو تفویض کیا گیا تھا، وہ چند روز میں خاصے متحرک نظر آئیں گے اور قوم کو بتائیں گے کہ ارشد ندیم بہت مہمان نواز ہے، وہ اپنے مہمانوں کو اپنے پلے سے چائے پلاتا ہے، کھانا کھلاتا ہے، وہ بہت نیک ہے، ہر نوجوان لڑکی کو اپنی بہن سمجھتا ہے، جبکہ عمر میں ایک، دو روز اپنے سے بڑی لڑکی کو اپنی والدہ کی طرح عزت دیتا ہے، اس کی زندگی میں آج تک کوئی معاشقہ نہیں، اس کے کسی غیر ملکی لڑکی سے تعلقات یا ناجائز تعلقات نہیں ہیں۔ وہ بے حد ایماندار انسان ہے اور میرٹ پر یقین ہے، وہ کسی کو بیماری میں مبتلا دیکھے تو ساری رات سو نہیں سکتا، وہ ڈھابے سے دال روٹی کھا کر ٹرک اڈے پر اکثر سو جایا کرتا ہے، وہ سادہ سی شلوار قمیض پہن کر بھی کسی احسان کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا، وہ پانچ وقت کا نمازی ہے۔ گزشتہ 20برس میں اس کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، وہ پاکستانیوں کی حالت زار دیکھ کر کڑھتا ہے اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ اس کے ماتھے پر چوٹ کا نشان نہیں محراب ہے، وہ ساتھ میں صرف تسبیح رکھتا ہی نہیں ہر وقت کچھ پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اولمپک چیمپئن تو بنا ہی دیا ہے لیکن اس کی منزل کچھ اور ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتے ہے، وہ کوئی عام آدمی نہیں بہت بڑا ہیرو ہے، اس سے بڑا ہیرو جو آج کل زیرو ہے، وہ عالم اسلام کو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ سب کیوں ہو رہا ہے، یہ سب بے سبب نہیں ہے، منصوبے کے تحت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button