Column

معذور افراد ذمہ داری نہیں، ہمارا حصہ ہیں

معذور افراد ذمہ داری نہیں، ہمارا حصہ ہیں
رفیع صحرائی
3دسمبر کو دنیا بھر میں معذوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار دار (47/3) کے تحت 1992ء میں باقاعدہ تسلیم کیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد معذور افراد کے حقوق اور بہبود کو اجاگر کرنا، معاشرے میں ان کی شمولیت کو فروغ دینا، معذوری سے وابستہ چیلنجز اور رکاوٹوں کے بارے میں شعور پیدا کرنا، ان کے وقار اور عزتِ نفس کا خیال رکھنا، ان کی ضروریات کو سمجھنا، معاشرے میں باعزت مقام دلانا، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کے ہر پہلو میں معذور افراد کی رسائی اور انضمام کو یقینی بنانا، معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
ہمارے ملک میں 15فیصد یعنی قریباً پونے چار کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ ہمارے رویّوں کی وجہ سے ان تین کروڑ لوگوں کا مستقبل انتہائی تاریک اور اذیت ناک ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اس دن کو اس لیے متعارف کرایا تھا کہ معاشرے کو یہ احساس دلایا جائے کہ معذور افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ کسی ترس یا چیریٹی کے نہیں، حقوق کے مستحق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے حقوق کی صورتِ حال کیا ہے؟
وفاق اور تمام صوبے معذوروں کے ان حقوق پر متفق ہیں کہ ملازمت میں ان کا کوٹا، علاج، تعلیم اور سہولتوں میں خصوصی رعایت، ہر ادارے میں قابلِ رسائی انفرا سٹرکچر کی فراہمی اور خود مختاری و باعزت زندگی معذور افراد کا حق ہے۔ روایتی طور پر پاکستان میں ان کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ 2فیصد ہے البتہ بعض صوبوں نے اسے 3سے 5فیصد تک بھی کر دیا ہے۔
معذور افراد کی قومی پالیسی کے بنیادی مقاصد میں معذور افراد کی بحالی، ان کی خصوصی تعلیم، روزگار، تکنیکی تربیت اور قانونی تحفظ شامل ہیں لیکن پالیسی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے نفاذ کا کوئی مضبوط طریقہ کار طے نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہ لوگ محرومیوں کا شکار ہیں۔ حکومت پنجاب نے معذوروں کی تعلیم کے خصوصی مراکز تو قائم کر دیئے ہیں مگر ان کی تعداد کم اور سہولتیں محدود ہیں جبکہ یہ تحصیل کی سطح پر یا بڑے شہروں میں قائم کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے دور دراز اور دیہات میں رہنے والے مکمل مستفید نہیں ہو پاتے۔ دیگر صوبوں میں تو بھی نہیں ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ ان کے درست ڈیٹا کی عدم موجودگی رہا ہے تاہم اب اس پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ معذور افراد کے لیے خصوصی شناختی کارڈز نادرا سے بن رہے ہیں۔ ان کارڈ ہولڈرز کی مالی امداد کی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازمت کے حامل معذور افراد کو اسپیشل الائونس بھی دیا جا رہا ہے۔ مریم نواز حکومت معذور افراد کی بہبود کے لیے سنجیدہ کام کر رہی ہے۔ الیکٹرک بسوں میں انہیں مفت سفر کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ معذور افراد کو وظائف دیئے جا رہے ہیں۔ وہیل چیئرز، آلات اور ان کی بحالی کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انہیں صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پختونخوا کی موجودہ حکومت نے بھی شدید معذور افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سطح پر معذور افراد کا جدید اور سائنسی انداز میں مکمل ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔ ان کی تعداد اورمعذوری کی نوعیت کے تحت ان کی سہولت اور بہبود کی پالیسیاں بنائی جائیں مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔ انہیں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں، دفاتر اور مارکیٹوں میں قابلِ رسائی انفرا اسٹرکچر مہیا کیا جائے۔ ہمیں ہر سڑک، ہر عمارت اور ہر ادارے کو معذور افراد کے لیے قابلِ استعمال بنانا ہو گا۔ انہیں آن لائن کام کر کے روزگار کمانے کی تربیت فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
معذور افراد آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ان پر ترس کھایا جائے۔ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا دی جائیں جو ہم نے بطور معاشرہ اپنے رویّوں، انفرا اسٹرکچر، کمزور پالیسیوں اور غفلت سے کھڑی کی ہوئی ہیں۔
یہ دنیا ایک سفرگاہ ہے۔ اس سفر میں کچھ مسافر ایسے بھی ہیں جو جسمانی کمزوریوں کے باوجود روح کی طاقت سے چلتے ہیں۔ جو ہاتھوں سے نہیں، حوصلے سے بلند ہوتے ہیں۔ جو پیروں سے نہیں، عزم سے چلتے ہیں اور جو آنکھوں سے نہیں، دل کی روشنی سے راستہ پہچان لیتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ’’ معذور‘‘ کہلاتے ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ دراصل یہی لوگ زندگی کو زندگی کی طرح جیتے ہیں۔ معذور افراد ہمارے معاشرے کا کمزور نہیں بلکہ سب سے مضبوط طبقہ ہیں۔ وہ روز زندگی کے امتحانوں سے گزرتے ہیں مگر پھر بھی مسکراتے رہتے ہیں۔ شاید یہی وہ مسکراہٹ ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی اصل معذوری جسم کی نہیں، سوچ کی ہوتی ہے۔ معذوری اللہ کی طرف سے معذور کے لیے بے شک آزمائش ہوتی ہے لیکن یہ صحت مند افراد کے رویّوں کا امتحان بھی ہوتی ہے کہ وہ اس آزمائش کو ترس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا احترام کی نظروں سے۔
یاد رکھیے! مناسب روزگار ان کا حق ہے انہیں اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں، آپ ہم میں سے ہیں اور ہم آپ لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی اور فلاحی اداروں کو بھی ان کی بحالی کے لیے آگی بڑھنا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں بھی یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خصوصی افراد کو طنز اور نفرت کا نشانہ بنا کر انہیں احساسِ کمتری کا شکار نہ بنائیں، معذوری کا احساس دلا کر انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج نہ بنائیں، ان سے پیار کریں، ان کی دلجوئی کریں کہ اپنی مرضی سے وہ معذور نہیں ہوئے۔ ان کی معذوری کو کبھی مجبوری نہ بننے دیں۔

جواب دیں

Back to top button