قوم کی تقدیر کے لئے حقیقی فیصلے

قوم کی تقدیر کے لئے حقیقی فیصلے
کالم نگار : تجمّل حسین ہاشمی
بولیویا جنوبی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے، اس کی سرحدیں برازیل پیراگوئے اور ارجنٹینا سے ملتی ہیں اور دوسری طرف یہ چلی اور پیرو سے متصل ہیں، یہ خشکی میں گرا ہوا سبز جنگلات کا ملک ہے۔ 1530ء میں ہسپانوی جہاز رانوں نے دریافت کیا۔ اس علاقے میں چاندی دریافت ہوئی، سپن کے بڑے بڑے تاجروں نے اس طرف رخ کر لیا۔ ان لوگوں نے علاقے میں جدید شہر بنائے مقامی لوگوں کو کان کنی اور چاندی نکلنے کی مشقت پر لگایا۔ اور بولیویا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ 1809ء میں ونیزویلا کے آزادی پسند لیڈر جنرل صائم بوریا نے جنوبی امریکہ کی ہسپانوی کالونیوں کو آزاد کرانا شروع کیا، یہ جدوجہد 16سال تک جاری رہی۔ 1825ء کو جنرل سائمن بولیور کے ساتھی جنرل نے آزاد کرا لیا۔ عوام نے اپنے محسن کے نام ملک کو منسوب کر دیا۔ 2005ء تک فوجی جنرلوں، غیر ملکی طاقتوں اور طاقتور پڑوسیوں کی سیاسی اور عسکری چرا گاہ بنا رہا۔ اس دوران ایوو موریلس بولیویا کا صدر بن گیا۔ یہ وہاں کا مقامی باشندہ تھا۔ اس کا تعلق وہاں کے انتہائی قریب طبقے سے تھا۔ اس کو ایک خاص رنگ کے سویٹر کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہوئی، موریلس پچھلے 20سے 25برس سے نیلے اور سرخ رنگ کا ایک دھاری دار سویٹر پہن رہا تھا، اس نے اپنا سارا سیاسی سفر اسی سویٹر میں طے کیا۔ کسی شخص نے اسے کسی دوسرے لباس میں نہیں دیکھا وہ ایک مقبول عام سیاستدان ثابت ہوا۔ 2005ء میں 54فیصد ووٹ لے کر بولیویا کا صدر منتخب ہوا، صدر بننے کے بعد موریلس نے سویٹر پہننا ترک نہیں کیا، وہ اب تک بے شمار عالمی لیڈروں سے مل چکا ہے، لیکن اس نے کبھی ٹائی سوٹ نہیں پہنا، وہ صدر بش سے لے کر ٹونی بلیئر تک تمام لیڈروں سے اسی سویٹر میں ملا۔ اس کی سادگی ایک فیشن کی شکل اختیار کر گئی۔ دنیا بھر میں اس کا سویٹر برانڈ بن گیا۔ 1970ء میں وہاں گیس نکلی، ان کا برازیل کے ساتھ ملکر پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہوا، جو 20سال میں مکمل ہوا۔ اس وقت گیس پائپ لائن کی آمدن پر سفید پوش باشندوں کی اجارہ داری تھی۔ دوسرے لوگ غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔ دولت کی تقسیم میں فرق بڑھ رہا تھا۔ صدر مورلیس نے قانون میں تبدیلی کی اور گیس لائن کی آمدن پورے ملک میں استعمال ہونے لگی۔ اس پر امریکی سفیر فلپ گولڈ برگ نے اپوزیشن رہنمائوں کو مخالف کرنا شروع کر دیا۔ صوبوں میں احتجاج ، ہنگامے پھوٹ پڑے۔ حکومت نے امریکی سفیر کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس کو سمجھ نہیں آئی۔ دوسرے ہفتہ بولیویا کے دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو ناپسندید قرار دے کر نکل جانے کا حکم دیا۔ یہ امریکہ کے منہ پر بہت بڑا تمانچہ تھا۔ آپ یقینا حیران ہوں گے کہ اتنا بڑا قدم بولیویا کے صدر نے کیسے اٹھا لیا۔ اب آپ کو بتاتے ہیں کہ بولیویا کتنا بڑا ملک ہے، امریکہ سامنے کتنا طاقتور ہے۔ اس ملک کی کل آبادی 91لاکھ 19 ہزار 1سو 52تھی۔ اس کی فوج اس وقت تقریبا 30ہزار تھی۔ امریکہ اس حرکت کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں کر پایا۔ امریکہ نے بولیویا کے سفیر کو نکالا اور ساتھ میں دھمکی دی ۔ یہ دھمکی جب وینز ویلا پہنچی تو وہاں کے صدر نے بھی یکجہتی کیلئے امریکی سفیر کو اپنے ملک سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ وینزویلا دنیا کا تیل پیدا کرنے والا واحد غیر اسلامی ملک ہے۔ وینزویلا کے صدر نے امریکی صدر کو دھمکی دی کہ اگر بولیویا کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ تیل سپلائی بند کر دے گا۔ اسی دوران روس نے اپنے طیارے وینزویلا بھجوا دئیے، سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ وینزویلا کی آبادی دو کروڑ 18لاکھ ہے، تیل نکلنے کے باوجود اس کا شمار دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے، اس کے پاس ایک لاکھ فوج ہے اور امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے فوج کے پاس جدید اسلحہ موجود نہیں ہے۔ ہینڈورس جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کی معیشت پھلوں بالخصوص کیلے کی برآمد پر منحصر ہے اور اسی مناسبت سے یہ بنانا ری پبلک کہلاتا ہے، اس کی آبادی 60لاکھ سے زیادہ ہے اور اس میں پولیس ہی فوج کا کام کرتی ہے۔ دو دن قبل ہینڈورس میں امریکی سفیر نے وہاں کے صدر کو اپنی اسناد پیش کرنا تھیں، لیکن جب بولیویا کا مسئلہ سامنے آیا تو ہینڈورس کے صدر نے امریکی سفیر سے اسناد سفارت لینے سے انکار کر دیا۔ یہ ان ممالک کی دید دلیری تھی۔
اب آتے ہیں اپنے پیارے پاکستان کی قیادت کے فیصلوں پر جو انہوں نے پیچھے 77سال سے کئے ہیں۔ اور ان فیصلوں میں کتنا خوف، کتنی دیدہ دلیری رہی۔ ویسے تقدیر انسان کی ہو یا ملکوں کی، قربانیوں، مشکلات سے ہی عزت وقار حاصل ہوتا ہے۔ جو قوم اپنی تقدیر کو بدلنے کیلئے مشکلات برداشت نہیں کرتی وہ کبھی کامیاب قوم نہیں بن سکتی۔ 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستانی دورے پر تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اس کی میٹنگ تھی ۔ ہنری نے وزیر اعظم کو امریکہ کا میسج دیا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھٹو ایٹمی پروگرام ترک کر دیں۔ بھٹو صاحب نے سکون سے بات سنی اور ہنری سے مخاطب ہوئے کہا ’’ آپ میرے دوست ہیں آپ مشورہ دیجے۔ مجھے کیا کرنا چاہئے ‘‘۔ ہنری مسکرا اور نرم آواز میں بولا ’’ پرائم منسٹر سفارت اور اقتدار کے کھیل میں کوئی دوست نہیں ہوتا۔ میں اس وقت پیغام رساں ہوں ۔ آپ کو کسی اپنے مشیر سے مشورہ کرنا چاہئے ۔ بھٹو صاحب مسکرائے اور بولے اس کے با وجوہ میں آپ کو اپنا دوست سمجھتا ہوں۔ ہنری نے قہقہہ لگایا اور بولا آپ ایک شاطر انسان ہیں۔ ہنری تھوڑی دیر توقف کے بعد بولا میں آپ کو مشورہ نہیں بلکہ وارننگ دینے آیا ہوں۔ امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بے شمار خدشات ہیں آپ کے پاس میری بات منانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ، بھٹو صاحب نے مسکرا کر پوچھا ’’ فرض کرو میں انکار کر دیتا ہوں ‘‘۔ ہنری کے چہرے پر سنجیدگی آ گئی اس نے اپنے لفظ چبا کر بولا ’’ پھر ہم تمہیں عبرت ناک مثال بنا دیں گے ‘‘۔ بھٹو صاحب کا رنگ سرخ ہو گیا وہ کھڑی ہوئے، انہوں نے ہنری کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بولے پاکستان امریکی صدر کے بغیر بھی چل سکتا ہے، اب تم لوگوں کو اس خطے میں اپنے لیے نیا حلیف تلاش کرنا پڑے گا۔ بھٹو صاحب مڑے اور باہر نکل گئے ۔۔ ( پیج نمبر 199کتاب زیرو پوائنٹ 5) ۔
ہم نائن الیون کے بعد کی صورتحال کو بھول جائیں لیکن یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ایٹمی پروگرام کیلئے کھڑا ہونا قوم کی تقدیر کیلئے بڑا فیصلہ تھا، بھٹو دور کے بعد سے اب ایک بار پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 26فروری کو انڈیا کو شکست دے کر قوم میں نئی ہمت حوصلہ پیدا کیا، سر اٹھا کر جینے اور اپنے حق کیلئے جینی کا تگڑا فیصلہ کیا، انڈیا کی بتی گل کر دی گئی، اس کی واٹ لگا دی گئی، تا حیات یاد رکھے گا، جنگ کے نام پر دنیا بھر میں ذلیل رسوا ہوا، جنگ کا مطلب سمجھایا گیا، اس وقت ملکی سیاسی حلقوں کو سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، مفاہمت اور آپس میں رواداری کو پروان چڑھانا چاہئے۔ سیاسی عمل کو زندہ رکھیں تاکہ قوم تقسیم نہ ہو، نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیری عمل کوئی اچھا عمل نہیں، یہ سب مشاورت وقت سے پہلے بھی کی جا سکتی تھی، چلیں دیر اے درست اے۔ ملک کی عزت وقار کا خیال رکھنا تمام فیصلہ سازوں پر لازم ہے، آج قوم جس فخر پر کھڑی ہے اس کے تقدس کا خیال کریں، آپس میں لڑائی جھگڑے جگ رسائی کا باعث ہیں۔





