انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تجارتی گزرگاہیں کھولنے کا فیصلہ

اداریہ۔۔۔۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تجارتی گزرگاہیں کھولنے کا فیصلہ
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں سرحدی جھڑپوں، دہشت گردی کی سرگرمیوں، اور سیاسی اختلافات نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پیچیدہ اور کشیدہ بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت نہ ہونے کے باوجود، کچھ اہم نکات سامنے آئے ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنا تھا، خاص طور پر اکتوبر میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو بہتر بنانا تھا۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات کے باوجود، دونوں ممالک کے حکام کسی مستقل معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ تاہم، یہ مذاکرات ایک مثبت پیش رفت سمجھے جا سکتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ ایک اہم قدم ہے، کیونکہ گزشتہ عرصے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مسلسل سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں دونوں ممالک کے لیے سنگین مسائل بن چکی ہیں۔ ان حالات میں جنگ بندی کا سمجھوتہ دونوں ممالک کے لیے ایک قیمتی موقع ہو سکتا ہے تاکہ تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف قدم بڑھایا جا سکے۔پاکستان کی حکومت کی جانب سے افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف گروپوں کے خلاف تحریری یقین دہانی دیں، تاہم طالبان حکام اس پر تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں موجود طالبان مخالف گروہ، خاص طور پر ٹی ٹی پی افغان سرزمین پر پناہ گزین ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں افغان طالبان کی ہچکچاہٹ واضح طور پر پاکستان کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا موقف، دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ ہے، جس کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے دونوں فریقوں کو سنجیدہ ارادے سے بات چیت کرنی ہوگی۔ پاکستان کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستانی فوج اور سیکیورٹی ادارے مختلف علاقوں میں آپریشنز کر رہے ہیں اور طالبان مخالف گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود، افغان طالبان کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی گزرگاہوں کی بندش نے افغانستان میں انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ 50روز سے چمن اور طورخم کے تجارتی گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے افغانستان میں غذائی اشیائ، ادویات، اور دیگر ضروری سامان کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ افغان عوام کے لیے یہ صورتحال انتہائی مشکل بن چکی تھی، اور اس کا اثر ملک بھر میں غذائی قلت اور طبی سہولتوں کی کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔ پاکستان نے اس انسانی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں تجارتی گزرگاہوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افغانستان میں جاری انسانی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ اس اقدام کا مقصد افغانستان کے عوام کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، خاص طور پر جب کہ اقوام متحدہ کے ادارے جیسے یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام، اور یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ افغانستان کو امدادی سامان فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے کی جانے والی کوششیں ایک مثبت قدم ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی طرف ایک اور اہم پیش رفت ہے۔ وزارت تجارت کی جانب سے تجارتی گزرگاہوں کو کھولنے کا فیصلہ افغان عوام کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف غذائی اشیاء کی فراہمی ممکن ہو سکے گی بلکہ ادویات اور طبی آلات بھی افغانستان پہنچائے جا سکیں گے۔پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طورخم اور چمن کی تجارتی گزرگاہوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افغانستان میں غذائی اشیاء اور ادویات کی کمی کو دور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں وزارت تجارت نے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیوں کے لیے کنٹینرز کی کلیئرنس کا عمل شروع کرنے کی درخواست کی ہے، جس سے افغانستان میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ اقدام نہ صرف افغانستان کے لیے بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نیا باب کھولنے کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کی ضرورت ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جو صرف سرحدی جھڑپوں یا دہشت گردی کے واقعات تک محدود نہیں ہے، بلکہ دونوں ممالک کی عوامی سطح پر بھی ایک دوسرے کے بارے میں متضاد جذبات پائے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو اپنی عوام کی ضروریات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ پائیدار اور مثبت تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات ایک موقع تھے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر سکتے۔ اگرچہ مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن جنگ بندی کا برقرار رہنا ایک امید کی کرن ہے کہ دونوں ممالک امن کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح، تجارتی گزرگاہوں کا کھلنا بھی ایک مثبت اشارہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا امکان ابھی موجود ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی اور مسائل کا حل آسان نہیں ہے، لیکن حالیہ پیش رفتیں، جیسے جنگ بندی کی تجدید اور تجارتی گزرگاہوں کا کھولنا، دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں موجود بحران کو کم کیا جا سکے اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان اعتماد پیدا کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی اور سرحدی مسائل کے حل کے لیے مذاکرات جاری رکھنے چاہیے تاکہ دیرپا امن اور استحکام کی بنیاد رکھی جا سکے۔
شذرہ۔۔
سائبر کرائمز میں ہوشربا اضافہ
پاکستان میں سائبر کرائمز میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، جس کے اثرات نہ صرف معیشت بلکہ عوامی اعتماد اور قومی سلامتی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، رواں سال نیشنل کرائم کنٹرول اتھارٹی (NCCIA)کو ایک لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جو 2024ء کے مقابلے میں بڑھ کر 2025ء میں 112663تک پہنچ گئیں ۔ لیکن ان شکایات کی انکوائری کی تعداد صرف 26036رہی، جو کہ اس بات کا غماز ہے کہ سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے حکومت کی کوششیں ناکافی ہیں۔ سائبر کرائمز میں اضافہ نہ صرف انفرادی سطح پر شہریوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے، بلکہ ملک کی اقتصادی صورتحال پر بھی اثر ڈال رہی ہے۔ ہیکنگ، فراڈ، سوشل میڈیا پر ہراسانی، آن لائن چوری اور دیگر سائبر جرائم کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کی زندگی میں بے چینی اور خوف بڑھ گیا ہے۔ حکومتی اداری ان جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی وسائل اور استعداد رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مجرموں کے خلاف کارروائی میں تاخیر اور کمزوری پیدا ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2025ء میں سائبر کرائمز میں ملوث 2445ملزم گرفتار کیے گئے، لیکن ان میں سے صرف 32کو سزا ہوئی، جبکہ 122ملزم عدالتوں سے بری ہو گئے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سائبر کرائمز کے مقدمات میں تفتیشی عمل اور عدالتی کارروائیاں انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ ملزمان کو جلد سزا نہ ملنا ان جرائم کو مزید بڑھاوا دیتا ہے اور لوگوں میں انصاف کے حصول کے حوالے سے مایوسی بڑھتی ہے۔ پاکستان میں سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)کے تحت اقدامات شروع کیے ہیں۔ این سی سی آئی اے کے سینٹرز کی تعداد 15سے بڑھا کر 64کر دی گئی ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ لیکن یہ تعداد ابھی بھی ملک کی بڑھتی ہوئی سائبر کرائمز کے مقابلے میں ناکافی نظر آتی ہے۔ تفتیشی افسران کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پی سی ون تیار کرلیا گیا ہے اور وزارت داخلہ نے وزیراعظم سے این سی سی آئی اے میں بھرتیوں کی منظوری بھی لے لی ہے، جو ایک ضروری قدم ہے۔ سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، سائبر کرائمز کی تفتیش اور کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور ماہر افسران کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ اس کے علاوہ، سائبر کرائمز کے حوالے سے عوامی آگاہی بھی ضروری ہے تاکہ لوگ ان جرائم سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ سائبر کرائمز میں اضافہ ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جس کے لیے حکومت کو فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف شہریوں کے لیے ایک مستقل پریشانی بن جائے گا بلکہ قومی سلامتی اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔ اس کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ سائبر کرائمز کا مقابلہ کیا جا سکے اور پاکستان کو ایک محفوظ ڈیجیٹل معاشرہ بنایا جا سکے۔







