ابتدائی تعلیم اور اردو زبان
ابتدائی تعلیم اور اردو زبان
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
پاکستان میں نصاب اور نصابی زبان ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کو کبھی حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ سو یہ مسئلہ مسلسل حل طلب چلا آ رہا ہے ۔
مختلف حلقوں کی طرف سے اردو کو نصابی زبان کے طور پر اختیار کرنے کی آوازیں ایک عرصے سے اٹھ رہی ہیں۔ جہاں پر پروفیسر سلیم ہاشمی جسے قابل ذکر ایک عرصے سے اردو کو اس کا جائز دلانے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں، وہیں دوسری طرف مقامی زبانوں کی محبت میں سرشار افراد مقامی زبان میں نصاب کی تدوین کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مقامی زبانوں میں ابتدائی تعلیم کی بات ایک عارضی تدبیر سے کہیں بڑھ کر ملک کی فکری اور قومی بنیادوں کو خطرے میں ڈالنے والا ایک دور رس عمل بن سکتی ہے۔ اصولی طور پر مادری زبان میں تعلیم کی افادیت پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ بچے اپنی پہلی زبان میں تصورات کو تیزی سے جذب کرتے ہیں، اعتماد کے ساتھ سیکھتے ہیں اور ان کی ذہنی نمو صحت مند رہتی ہے۔ لیکن موجودہ منصوبہ بندی میں اس اصول کو ایک ایسے طریقے سے بروئے کار لایا جا رہا ہے جو قومی زبان اردو کو نظامِ تعلیم سے بے دخل کر کے انگریزی کو جبری بالا دستی دے رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف تعلیمی نظام کے انتشار کو مزید گہرا کرے گا بلکہ ہماری اجتماعی شناخت کے لیے بھی سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔
1۔ نئی تعلیمی اسکیم کا سب سے تباہ کن پہلو
ابتدائی جماعتوں میں اردو کا مکمل اخراج ہے۔ بنیادی خواندگی اور تعلیمی بنیاد کے لیے صرف دو زبانیں رہ گئی ہیں: مقامی زبان اور انگریزی۔ ایک ایسا طالب علم جو پہلی تین جماعتیں اردو کی بنیادی خواندگی حاصل کیے بغیر گزارے گا، وہ ایک طرح سے قومی لسانی ورثے سے کٹا ہوا ہوگا۔
یہ لسانی خلا چوتھی جماعت میں جا کر تعلیمی تقسیم کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جب بچے کو معاشرتی علوم کے مضمون میں اردو یا انگریزی میں سے کسی ایک کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اختیار دیا جاتا ہے تو وہ ناگزیر طور پر انگریزی کا انتخاب کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ سائنس اور ریاضی جیسے اہم مضامین پہلے ہی انگریزی میں منتقل ہو چکے ہوتے ہیں، اور بچہ اس لسانی بوجھ سے بچنے کے لیے اسی زبان کو ترجیح دیتا ہے جو اسے اعلیٰ درجات میں مددگار ثابت ہو سکے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں اردو کے کردار کو آہستہ آہستہ اور خاموشی سے نظامِ تعلیم کے حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ اردو صرف ایک مضمون نہیں رہتی، وہ ایک غیر علمی اور غیر ضروری بوجھ بن جاتی ہے۔ جس زبان میں طالب علم سوچتا نہیں، اہم علمی تصورات کو نہیں پڑھتا، اور جسے کسی بڑے علمی شعبے میں استعمال نہیں کرتا، وہ زبان وقت کے ساتھ اپنی افادیت کھو دیتی ہے اور بالآخر غیر ضروری قرار دے کر نصاب سے نکال دی جاتی ہے۔ یہ صرف لسانی بے دخلی نہیں، یہ ہماری فکری خود مختاری پر ایک ضرب ہے۔
2۔ قومی وحدت اور فکری رشتہ کا انحصار اردو پر
پاکستان جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے ایک کثیر لسانی ملک ہے۔ یہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور سرائیکی سمیت بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں، جو ہماری ثقافتی رنگارنگی کا ثبوت ہیں۔ مگر ان تمام لسانی اکائیوں کو ایک لڑی میں پرونے والی زبان اردو ہے۔ یہ صرف ایک رابطے کی زبان (Lingua Franca)نہیں ہے، یہ ایک قومی شناخت، مشترکہ فکری رشتہ اور اجتماعی وحدت کا بنیادی ستون ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں ہماری قومی شاعری، تاریخ اور نظریاتی بیانیہ محفوظ ہے۔ اگر آنے والی نسلیں اردو سے بیگانہ ہو گئیں، اور ملک کا ایک بڑا حصہ قومی زبان میں فکری اظہار کی صلاحیت سے محروم ہو گیا، تو اس کا نقصان صرف لسانی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کی فکری بنیاد میں دراڑ پڑ جائے گی۔ اس سے صوبائی تعصبات اور لسانی گروہ بندیوں کو مزید تقویت ملے گی، جس کا ملک کی سالمیت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
3۔ انگریزی کی جبری بالادستی اور تعلیمی امتیاز میں اضافہ
موجودہ پالیسی کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ مقامی زبان کو فروغ دے رہی ہے، لیکن درحقیقت وہ ایک اور سنگین مسئلہ پیدا کر رہی ہے، انگریزی کی جبری بالادستی۔ پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ پہلے ہی طبقاتی امتیاز کا شکار ہے: ایک طرف انگریزی میڈیم اشرافیہ ہے جو بہترین اداروں میں پڑھ کر ملک کے وسائل پر قابض ہیں، اور دوسری طرف اردو یا مقامی زبان میڈیم عوام ہیں جو تعلیمی اور اقتصادی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سائنس اور ریاضی کو لازمی طور پر انگریزی میں پڑھانے کا فیصلہ اس خلیج کو مزید وسیع کرے گا۔ بچے زبان کے بوجھ تلے دب کر تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں گے اور علم ایک مشکل، غیر ملکی شے بن جائے گا۔ وہ تصورات کو سمجھنے کے بجائے انہیں صرف یاد کرنے ( رٹہ لگانے) پر مجبور ہوں گے، جو گزشتہ 78برسوں سے ہمارے تعلیمی ڈھانچے کو منتشر کیے ہوئے ہے۔ یہ وہ تباہ کن صورتحال ہے جو کسی بھی قوم کے تعلیمی مستقبل کے لیے زہر قاتل ہے۔
4۔ فکری انتشار: تین لسانی چیلنجز
زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں ہوتی، یہ سوچنے کا طریقہ (Framework for Thinking)بھی بناتی ہے۔ ایک بچے کی فکری نشوونما اس وقت کمزور ہو جاتی ہے، جب اسے تین مختلف لسانی جہانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے:
گھر کی زبان، مقامی زبان، بنیادی مضامین کی زبان: انگریزی۔ قومی زبان: اردو ( بطور ایک غیر اہم مضمون)
اس مسلسل لسانی تنائو (Cognitive Load)کی وجہ سے، بچہ کبھی بھی کسی ایک زبان میں مضبوط فکری بنیاد قائم نہیں کر پاتا۔ وہ علم کو مکمل طور پر جذب کرنے کے بجائے اسے مسلسل ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے میں اپنی ذہنی توانائی صرف کرتا ہے۔ مضبوط قومیں تب بنتی ہیں جب ان کی لسانی اور فکری بنیادیں مضبوط ہوں۔
5۔ درست راستہ: عالمی ماڈل کی پیروی
دنیا کے کامیاب تعلیمی ماڈلز ایک سادہ اور منطقی ترتیب پر متفق ہیں، جو پاکستان کی موجودہ الٹی ترتیب کے برعکس ہے:
ابتدائی سطح: مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے پختہ علمی بنیاد رکھی جائے۔
درمیانی سطح: قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر فکری وحدت اور مضبوط علمی ترقی کو یقینی بنایا جائے۔
اعلیٰ تعلیمی سطح: انگریزی اور عالمی زبانیں سکھا کر بین الاقوامی علم اور تحقیق سے رابطہ قائم کیا جائے۔ پاکستان میں موجودہ پالیسی اس منطقی ترتیب کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے انگریزی، پھر مقامی زبان، اور آخر میں اردو کو اہمیت دے رہی ہے۔ یہ بنیادی غلطی قوم کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کر چکی ہے جہاں اس کا فکری مستقبل دائو پر ہے۔
6۔ وقت کا تقاضا: ایک ہنگامی سوال
محمد سلیم ہاشمی کا سوال، ’’ کیا کوئی زندہ ہے یا سب مر چکے ہیں؟‘‘، محض جذباتی نہیں بلکہ پوری قوم کو مخاطب کرنے والا ایک آئینہ ہے۔ یہ سوال ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس تعلیمی سمت کا بلامحاسبہ جائزہ لیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی لسانی پالیسی کو درست نہ کیا، اور اردو کو اس کا علمی اور قومی مقام واپس نہ دلایا، تو آنے والی نسلیں ایک ایسی منتشر اور تقسیم شدہ قوم کا حصہ ہوں گی جو اپنی فکری جڑوں سے بیگانہ ہوگی۔ قوموں کی بقا ان کی زبانوں سے وابستہ ہوتی ہے، اور قومی زبان کی موت قوم کی فکری موت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس سلسلہ میں سب کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔





